ہماراپاکستان صدیوں پُرانی تہذیبوں، رسموں، رواجوں اولیا ء کے پیغامات علاقائی ادب شاعری لوک کلچر امن کا درس دیتاہے
اسلام آباد (رپورٹ ۔ عمرانہ کومل )
شہید بھٹو فاؤنڈیشن کے چیف ایگزیکٹو افیسر آصف خان نے کہا ہے کہ ہماراپاکستان صدیوں پُرانی تہذیبوں، رسموں، رواجوں اولیا ء کے پیغامات علاقائی ادب شاعری لوک کلچر امن کا درس دیتاہے ہمارا وطن عزیز آج جس دور سے گزر رہاہے وہاں اس خطے میں پائیدار امن پاکتان کی ترقی وخوشحالی لئے لئے ضروری ہے کہ ہم امن کے فروغ کاپیغام کے لئے اپنے کلچر کو اظہار کا ذریعہ بنائیں ۔ امن ہماری مٹی میں شامل ہے ہمارے وطن کی تمام ثقافتیں اس کا پیغام دیتے ہیں جس کو ہمیں آگے بڑھانے کے لئے مل کر کام کرناہوگا
ان خیالات کا اظہار انہوں نے شہید بھٹو فاونڈیشن ۔اور پیس فلکس کے زیر اہتمام “رقص امن ” کے موضوع پر ایک سنجیدہ فکری نشست و سیمینار اور ثقافتی رقص پرمبنی یادگارتقریب جو “شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف سائینس اینڈ ٹیکنالوجی
میں منعقدہ تقریب کی صدارت کرتے ہوئے کیں ۔ تقریب میں پروگرام ڈائریکٹر ریڈیوپکستان منظور کامران ، مشعال ٹرسٹ اسکول کی بانی و پرنسپل زیباحسین مہمان خصوصی تھے جبکہ عورت فاؤنڈیشن کی ڈائیریکٹر ممتاز مغل ، نیشنل پریس کلب اسلام آباد کی نائب صدر مائرہ عمران مہمانان اعزاز تھےجبکہ اسٹیج سیکرٹری کے فرائض عمرانہ کومل نے انجام دئے ۔
آصف خان نے مذید کہا کہ ہمارے وطن کی تمام ثقافی رنگوں کا حُسن امن کاپیغام اور سب کو جورناہے ہمارے گیت کہانیاں جھومڑ رقص سب امن کو فروغ کا اہم ذریعہ ہیں انہوں نے تمام مہمانوں کو خوش امدید کہتے ہوئے تنظیم کے تعارف میں بتایا کہ سابق وزیر اعظم شہید بی بی محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس ادارے کی بنیاد اپنی جِلاوطنی کے دوران 2004میں دبئی میں رکھی ۔ جس کا مینڈیٹ انسانی حقوق ،اقلیتوں خواتین اور نظرانداز طبقات کے حقوق کے فروغ کی آواز بلند کرناہے جبکہ روشن خیال ادیبوں و لکھاریوں کی بھی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔ آصف خان نے مذید کہاکہ پاکستان کو عالمی تنہائی جیسے حالات سے سے نکالنے اور پائیدار امن کے لئے یہاں کے کلچر اور امن کے پیغام کو فراغ دیناوقت کاتقاضہ ہے۔
اس موقع پرمہمان خصوصی پروگرام ڈائریکٹر ریڈیوپاکستان منظور نے اپنے خطاب میں کہاکہ ہمارے پاکستان کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی ہے جو ان گنت قربانیوں کے بعد ملاآج یہاں بدامنی ہمیں سوچ وچار پر مجبور کرہی کہ ہم امن کے قیام کے لئے مل بیٹھیں ۔ آج ہم نے یہاں جو مشعال ٹرسٹ کے بچوں کی علاقائی دھنوں پر مشتمل پرفارمنس دیکھی جس میں امن ہی امن چھلکتا ہے ۔ ہمارے بچے ہمارا مستقبل ہیں جن کو ہم نے تعلیم کے تمام تر طریقے استعمال کرتے ہوئے امن کاداعی بنانا ہے ہماررے ملک میں جہاں تعلیم کی شرح ویسے ہی کم ہے وہاں کم وقت مین بہترین پیغام رسانی کا ذریعہ ہمارا کلچر فن و ادب و ثقافت ہے علاقائی جھومر کے دورونا بچوں کے ایک تان میں ایک ساتھ اُٹھتے قدم اور احساسات کا اظہار یک جائی اور امن کا پیغام دے رہاتھا ۔ جسے ہم نے ہر سطح پر پہنچاناہے ۔ میری چونکہ پہلی پوسٹنگ ہی تربت ہوئی اور پاکستان بھر میں مختلف اسٹیشنز پر مجھے ریڈیوپاکستان کی ذمہ داریاں انجام دینے کا موقع ملا بچوں کا اداب فیچر معلوماتی کھیل میرا مرغوب شعبہ ہے جبکہ ہمارا علاقائی ادب امن کا درس دیتاہے ۔ میں سرائیکی بولنے والا شخص ہوں ملتان سے میراتعلق ہے مین جب بلوچستان میں رہاتو تربت میں گیاتو وہاں لوگ اپنے اپنے میوزک لگاکر سنتے اور سردھنتے تھے ۔ وہاں تان پورا، دیگرساز بینجو کے سپر سنیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارہ روح کے نرم گوشے امن کا پیغام وصول کررہے ہیں
جیسے عطاشاد نے کہا کہ پہاڑوں کی عطارسم نہین خاموشی
رات سوجائے تو بہتاہوا چشمہ بولے برصغیر پاک و ہند میں خاص طور پر حضرت امیر خسرو نے جو درس دیا اپنی شاعری میوزک میں امن کا پیغام ہے ہمارے تمام ورکنگ جرنلسٹ اور تمام شعبوں کے ساتھی جو آج یہاں موجود ہیں وہ اس امر پر غور کریں کہ ہمرا خطہ ہندو ، مسلم ، گوتم، بُدھ مت، جن مت، کو کس طرح آپ ؒ کی شاعری یک جاکرتی آپ ؒانے پنے پیرومرشد کے دربار پر جا کر قوالی کا آغاز کیا تو ہمارے سامنے تمام مذاہب کے پیروکارجھومنے لگے یہی تو امن کا پیغام اور رقص امن ہے جس پر جتنی بات کی جائے کم ہے ۔ منظورکامران کاکہناہے کہ ہمارا ؑظیم ورثہ لوک موسیقی رقص گیت ہمیں امن کا درس دیتے ہیں جس کو دہرانے اور پھیلانے کی ضرورت ہے انہوں نے شہید بھٹو فاؤنڈیشن کے سی ای او جناب آصف خان کو اس ق در خوبسور اور بامعنی تقریب منعقد کروانے پر مبارک باد پیش کی ۔
مہمان خصوصی مشعال ٹرسٹ کی بانی و پرنسپل
زیبا حسین نے کہاکہ امن کی جب ہم بات کرتے ہینں تو ہم دل کی بات کرتے ہیں ماں کی لوری کی بات کرتے ہین جنہیں آج ہماری ماؤں نے بھی بھلادیاہے ہم اس امن کی بات کرتے ہیں جب بچہ اپنی ماں کی لوری سنتاہے تو آرام سے سوتاہے یہ دل کی باتیں ہوتی ہیں امن کہیں اور سے نہیں بلکہ ہمارے اندر ہی سے ملتاہے جس میں جھانکنے کے لئے اپنی ماں بولی ثقافت کو ورثہ کو یاد رھنابے حد ضروری ہے انہوں نے بتایاکہ انہوں نے اقوام متحدہ کے تحت اور عالمی اداروں میں کئی سال کام کیا امریکہ میں مونٹیسوری کی تعلیم حآصل کی پڑھایالیکن دل کے سکون کے لئے دو سٹریت چلڈرنز پر مشتمل ایک اسکول شروع کیاآج جہاں تین اسکول ایسے ہیں جن میں پڑھنے والے سینکڑوں طلبہ طالبات امن کو تعلیم اور تربیت ہنرمندی فراہم کر کہ روشن مستقبل فراہم کیاجاتاہے زیباحسین نے مذید کہاکہ جن ہم آگے سے آگے بڑھنے کی دوڑ میں اپنی ثقافت بھول گئے ہیں ہمیں تمام علوم اور زبانوں کو سکھناہے لیکن اپنی بنیادوں کو بھی یاد رکھناہے ہمارامذہب خوبصورت دین اسلام ہے جو امن کا درس دیتاہے ہمیں ججمنٹل نہیں ہونا دوسروں پر تنقید کاکلچر ختم کرناہے اپنی ثقافت کے ذریعے امن کی مشعال ہر دل میں جگانی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ثقافت امن رواداری میرے اسکولوں کے بچوں کاتعلیم و تربیت ہے یہ ڈبوں میں بند نہیں ہوں گے آگے بڑہیں گے امن کے سفیر ہیں اور بنیں گے ۔
مہمان اعزاز ممتاز مغل نے اپنے خطاب میں کہاکہ ہمارے گھرون محلوں کھیل کے میدانوں تمام ترشعبوں میں امن پیداکرنے کی ضرورت ہے جس کے لئے ہمیں پُرامن رویوں کا فروغ دیناہے ایسے میں رقص امن جیساکامیاب پروگرام وقت کی ضرورت ہے ہمیں ایسی شعوری بیداری کا مستقل سلسلہ اپنے تعلیمی اداروں سے شروع کرناہوگا۔ شہید بھٹوفاؤنڈیشن، پیس فلکس ا ور عمرانہ کومل نےآج سے اس سلسلہ کاآغاز کردیا ہے بہترین کاوش ہے
مہمان اعزاز نیشنل پریس کلب کی نائب صدر مائرہ عمران نے کہا کہ بچوں کی پرفارمنس دیکھ کر جو اُمید کہیں کم ہوتی نظر آرہی تھی اب روشن ہوگئی ہے ۔ جب ہم غربت سماجی مسائل کے خاتمے اور ترقی کی بات کرتے ہیں تو وہ امن کی بات کرتے ہیں ہمیں ادھورے کام پورے کرنے ہیں معاشرے میں امن قائم کرناہے جس کے لئے ایسے پروگراموں کے ذریعیے ثقافت کا فروغ ضروری ہے ۔ ہمیں پہلے ہی قیام امن کے موثر اقدامات جن کا مطالبہ کیاجارہاتھا اتھانے میں تاخیر ہوگئی ہے ۔ مستقبل کی راہیں تقاضہ کر رہی ہیں کہ اپنی ثقافت ورثہ اپنائیں اور ایک قوم ہوجائیں ۔
قبل ازیں رقص امن کے موضوع پر مشعال ٹرسٹ کے طلبہ طالبات نے پنجابی، سندھی، کےپی بلوچی کشمیری ودیگر علاقائی زبانوں پر مشتمل جھومر پرمبنی ٹیبلو پیش کرتے ہوئے دل دل پاکستان امن کا پیغام دیا جنہیں حاضرین نے بھرپورداد سے نوازا۔
قبل ازیں علاقائی زبانوں کے ماہرین پر مشتمل فکری نشست منعقد ہوئی جس کی صدارت بھٹو فاونڈیشن کے چیف ایگزیکٹو افیسر جناب آصف خان صاحب نے کی جبکہ
جبکہ تقریب کی مہمان خاص ویمن جرنلٹس ایسویسی ایشن کی کنوینئر فوزیہ کلثوم رانا ۔
جبکہ مقررین میں پشتو زبان ماہر نقدوہنر پختون ایکشن آرگنائزیشن کے بانی و چئیرپرسن جناب ملک ریاض بنگش
پنجابی زبان و شاعری و موسیقی ولوک ثقافت کی دانشور معروف براڈ کاسٹر محترمہ رخسانہ مسرت
ماہر لسانیات بلوچی علم وہنر وثقافت و ادب سینئیر صحافی سرکاری نیوز ایجنسی(اے پی پی ) محترمہ رخشندہ تاج بلوچ
سندھی ادب و موسیقی و ثقافتی ورثہ کی داعی آہن شخصیت سینئر صحافی محترمہ عنبرین علی تھیں ۔
مہمان خاص فوزیہ کلثوم رانا نے اپنے خطاب میں کہا کہ اج کی تمام مقررین کی گفتگو یہی بتا رہی تھی کہ امن اس وقت ڈسٹرب ہوتاہے جس گھٹن بڑھتی ہے ۔ ان کا کہناہے کہ ہمارے ملک کے تمام علاقے پنجاب ، سنھ ، بل؛وچستان ، کے ، آزاد کشمیر ، جی بی ، سارے ہی علاقے خوبصورت ثقافتوں کے آئینہ دار ہیں ۔ اور جب ایک چھٹری تلے آتے ہیں تو ہی پاکستانی قوم بنتی ہے ہمارا یہی پیغام ہے پاکستان ہمارا ہے اور یہاں امن کو فروغ ہم نے خود ہی دیناہے جس کا اہم ذریعہ ہمارا کلچر ہے پیس لکس ایسا ادارہ ہے جوکمیونیٹی لیڈرز تیار کرتا ہے جو کمیونیٹی میں سب شعبوں کو امن کے لئے جورتے ہیں عمرانہ کومل نے کمال انداز میں پاستان کے تمام تر کلچر زبانوں اور رقص کو ایک چھت تلے اکٹھا کیا جس پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں
ملک ریاض بنگش نے پشتو کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امن کی بات ہورہی ہے تو ہم خوشحال خان خٹک ، محمود غزنوی،باچاخان کی یاد میں بات کریں تو وقت کم پڑجائے گا، امن کی بات کے ساتھ بہت سی تلخ حقیقتیں ہیں ، آج ہمارا پشتوں ملکی امن کے لئے اپنے لہوں کی قربانیاں دے رہے ہیں بچے اسکول جاتے ہیں جھولوں میں واپس آتے ہیں ۔
انہوں نے مختلف پشتو اشعار کے مطلب بتاتے ہوئے ان کے مفہوم بتائے کہ کس طرح آنسووں کو ضبط کرنے رواداری اور خلوص کا درس دیتے ہیں ۔ امن کے لئے ادب ہمارے رقص جھومڑ ۔ شاعری و ادب سمیت عملی جدوجہد میں پختوں ادب کا کردار ہے لیکن گزشتہ چالیس سال سے ہمارے ساتھ جو ظلم ہورہے ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہے ۔ ملک ریاض بنگش کاکہناہے کہ پختون ایسی زبان ایساکلچر ایسا ادب ہے جو اپنی مثال آپ ہے لیکن آج یہ ادب ہم سے ختم ہورہا ہے ۔ ہم بڑوں کے سرہانے نہیں بیٹھتے ہماررے ادب میں سگریٹ نسوار تو دور کی بار ایسا کوئی شخص گلی سے نہیں گزر سکتا انہوں کہا کہ ہماری زبان و ادب و جھومر کا پیغام امن ہی امن ہے جو وقت کی ضرورت ہے اس کا فروغ ہونا ھی آج کا تقاضہ ہے ہم امن باننٹے اور چاہتے ہیں ۔
براڈ کاسٹر محترمہ رخسانہ مسر ت نے کہا کہ ہمارا المیہ ہے کہ آج ہمارے بچوں نے پنجابی بولنا ہی ختم کردی ہے / پتا نہیں کیوں ؟ ان کا کناہے کہ پنجابی ایک ہونے اور اتحاد کی دعوت دیتی ہے ۔ انہوں نے مکمل تفصیل سے بنجابی زبان کا ماخذ اور مختلف روایات کا بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس زبان میں پیار ہی پیار اور محبت ہی محبت ہے ۔ یہ ایسی زبان ہے کہ کوئی دیگر زبان کا بھی فرد ہماری زبان ضرور سمجھے گا میں ریڈیو ؐیں پنجابی میں پروگرام کرتی ہوں مجھے سندھ کے پی بلوچستان سے ملکہ ترنم نورجہاں ، کوثر پروین، و دیگر پنجابی کے ناور گلوکاروں کے مقبول گانوں کی فرمائش آتی ہے ، تو دل جھوم جاتاہے انہوں نے درج زیل شاعری کا حوالہ دیا
پڑھ پڑھ کتاباں علم دیاں
توں نام رکھ لیا قاضی
ہتھ وچ پھڑ کے تلوار
نام رکھ لیا غازی
مکے مدینے گھوم آیا تے
نام رکھ لیا حاجی
او بھلیا حاصل کی کیتا؟
جے توں رب نا کیتا راضی ………!!
با با بھلے شاہ
اور بتایا کہ امن کا پیغام کس خوبصورت اسلوب سے دیاگیاہے
اسی طرح بابا جی کا شعر کہ
مسجد ڈھا دے مندر ڈھا دے ڈھا دے جو کچھ ڈھیندا ۔۔
اک بندے دا دل نہ ڈھاویں رب دلاں دے وچ رہندا ۔۔
اس سے بڑا امن کا درس اور کیاہو سکتا ہے
رخسانہ مسرت کا کہناہے کہ ہمارا پنجاب جو آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑاصوبہ اور سب کا بڑابھائی ہونے کا حق ادا اپنی میٹھی اور سچ زبان اور امن کے کھڑے جذبات سے کرتاہے ہماری لڈی ، جھومڑ شاعری اور پھر جہاں بھنگڑا پڑجائے تو بات ہی ختم ہوجاتی ہے ۔ جو رقص امن ہے آج کی منفرد محفل میں پنجابی میں دل کی باتین کرنے کا موقع فراہم کرنے پر شہید بھٹوفاؤنڈیشن، پیس فلکس ا ور عمرانہ کومل کی ممنون ہوں ۔
محترمہ رخشندہ تاج بلوچ نے بلوچی زبان و ادب پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا تعلق بلوچستان کے پہاڑی علاقہ تربت سے ہے جو مہرومھبت کی سرزمین ہے جہاں پنوں کا قلعہ ہے محبت کی داستانین ہیں سسی کی محبت کی سدائیں آج بھی فضا میں گونجتی ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ جب بھی بلوستان کا نام آتا ہے تو لگتاہے کہ یہاں امن نہیں ہے ۔۔ ایسا ہرگز نہیں بلکہ میں اپنے علاقہ اور وطن عزیز کی امن کی سفیر کے طور پر آپ کے سامنے ہوں ۔ اور کوشش کرتی ہوں کہ اپنی علاقائی امن کی اقدار سے سب کوآگاہ کروں لیکن ایسے مواقع ہئی نہیں ملتے ۔ میں آپ سب کو بتاناچاہتی ہوں کہ ہمارے علاقہ کے لوگ بے لوث امن محبت اور وفاکے پیکر ہیں ہمارے ادب مین یہ بات سکھائی جاتی ہے کہ
ہمیں ایک کٹورہ پانی پلادواور صدیوں تک ہمیں اپناوفادار بنالو
ہمارا شاعر پکار پکار کر کہتاہے کہ جنگ کی باتین نہ کرو۔
رخشندہ تاج بلوچ مذید کہتی ہیں کہ ہم امن پسند ہیں ہمارا ادپ چاپ چھڑنے موسیقی کئی قسم کے رقص امن کا درس دیتےاس کے باوجود ہم پر وقفے وقفے سے جو چیزیں مسلط کی جاتی ہیں اس کی گھٹن سے نکلنے کے لئے ہم اپنی موسیقی گانون اور رقص سے امن کا پیگام پھیلاتے اور اپنا بھی کتھارسز کرتے ہیں انہوں نے “می رقصم ” کلام پیش کرتے ہوئےمفہوم بتایاکہ ہم سب امن میں ہین اور امن میں جھوم رہے ہیں سب کو امن کی دعوت دیتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ آج کی یہ محفل ہمیں ہمارے امن کے آفاقی پیغام کی یاد دلاتی ہےشہید بھٹوفاؤنڈیشن، پیس فلکس ا ور عمرانہ کومل کا شکریہ ادا کرتے ہیں
صحافی محترمہ عنبرین علی نے موضوع پر سیر حاصل گفتگو کرتے
ہوا بتایا کہ خوشی کے مواقع پر ’’ہو جمالو‘‘ کا گیت گایا جاتا ہے اس گیت میںخیریت سے آنے‘ فتح حاصل کرنے اور سکھر پل سے گزرنے کا ذکر ملتا ہے جس ’’جمالو‘‘ کی تکرار آئی ہے وہ دراصل انگریزوں کے دور میں جمال نامی غلام تھا‘ جسے سزائے موت ہوئی تھیاُس زمانے میںسکھر بیراج کے پاس مال گاری کے گزرنے کے لیے لوہے کا ایک پُل بنایا گیا تھا۔ پُل پر سے آزمائشی طور پر ایک مال گاڑی کو گزارنا تھا تاکہ پُل کی مضبوطی کا اندازہ لگایا جاسکے۔ لیکن اس آزمائشی مال گاڑی کو چلانے کے لیے کوئی شخص تیار نہ تھا‘ سب کو خدشہ تھا کہ یہ پُل مال گاڑی کا وزن سہار نہ سکے گا اور گر جائے گا۔ چنانچہ جمال کو بلایا گیا اور اس کے سامنے ایک تجویز رکھی گئی کہ اگر وہ مال گاڑی کو پُل پر سے گزارنے میں کامیاب ہو گیا تو اس کی سزا معاف کر دی جائے گی اور اگر اس دوران یہ پُل گر گیا تو اُسے ویسے بھی مرنا ہی ہے۔ جمال اس تجویز پرراضی ہو گیا اور اُس نے دو‘ تین بار کامیابی کے ساتھ پُل پر سے مال گاڑی گزاری۔ حسب وعدہ جمال کی سزا معاف کر دی گئی اور وہ خوشی سے رقص کرنے لگا۔ مال گاڑی کے گزرنے کا منظر دیکھنے کے لیے وہاں جمال کے رشتے دار اور عام لوگ جمع تھے۔ جمال کو رقص کرتا دیکھ کر اس سے ناواقف لوگوں نے جمال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سندھی میں ایک دوسرے سے پوچھنا شروع کر دیا ’’اُھو کیر آھی۔‘‘ (وہ کون ہے؟) لوگوںنے بتایا ’’اُھو جمال آھی۔‘‘ (یہ جمال ہے) چنانچہ ’’اُھو جمال‘‘ سے ’’ہو جمالو‘‘ بن گیا۔اس گانے کی شاعری بھی ایک خاص واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہے مثلاً ’’منجھو کھٹیی ویو خیر سا‘ ہو جمالو‘‘ (جیت کر آیا‘ وہ جمالو)۔
’’سکھر وارے پآل سا‘ ہو جمالو‘‘ (سکھر والے پل سے‘ وہ جمالو)۔
’’جن جواکھیوں رب رکھیو۔‘‘ (خدا نے جس کی آنکھیں سلامت رکھیں) کیوں کہ اگر پھانسی ہو جاتی تو جمالو کی آنکھیں باہر نکل آتیں۔
’’جن جا پیر پنج سر جا‘‘ (جس کے پائوں پانچ سیرکے تھے۔) یعنی غلام سخت کام کرتے ہوئے سخت جان ہو جاتے ہیں۔ اس گانے کے آخر میں ذکر ہوتا ہے ’’جن جاوار گھنڈی وارا‘ جو جمالو‘‘ (جس کے بال گھنگھریالے ہیں‘ وہ جمالو)۔ سندھی عاشق اپنی محبوبہ جب وہ اسکو جنگ ہر جانے سے روکتی ہے تو اس نے یہ اشعار بولے
تنھنجی پاھن میں چوڑن جی موسم ہجے
تنھنجی پیرن میں چھیڑن جی چھم چھم ہجے
توکھاں قیامت تائیں غم ہجے
منھجی راہن میں کنڈا وچھائے نہ تو
مکھی زلفن جو قیدی بڑاے نہ توں
چھڈ تہ ماں تاریخ جو ورق بن جی ونیاں
صدن توہیں لکھنو ائیں پڑھبو ونیاں
قرض تنھنجو بھی موتے وڈو آ مگر
چھڈ تہ دھرتی جو قرض ماں لاہی وٹھاں
ماں بخاری بھٹائی بچائے وٹھاں اسا کا مطلب ہے کہ تمھارے ہاتھوں میں چوڑیوں کا موسم ہو
تمھارے پیروں میں پایل کی چھم چھم ہو
تمھارا غم قیامت تک رہے گا
میری راہوں میں کانٹے نہ بچھاؤ
مجھے زلفوں کا قیدی نہ بناؤ
چھوڑو کہ میں تاریخ کا ورق بن جاؤں
صدیوں تک لکھا اور پڑھا جاؤں
قرض تو تمھارا بھی مجھ پر بڑا ہے مگر
چھوڑو کہ دھرتی کا قرض بھی اتاروں
چھوڑو کہ بخاری اور بھٹائی کو بچالوں ہمارا ورثہ ثقافت اجرک لباس سر سے پاؤں تک امن کا پیغام دیتاہے ۔ جسے دل سے محسوس کیا جانا اور اسی طرح پھیلاناچاہیئے جیسے آج میڈم عمرانہ کومل نے کامیاب کاوش کی جن کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتے ہیں
تقریب کے اختتام۔پر میزبان و آرگنائزر پیس فلکس المنائی عمرانہ۔کومل نے اپنی نظم “رقص امن” پیش کی
رقص امن
آو سجائیں پھر وہی چمن
جہاں ہر آن ہو رقص امن
رقص امن
گندم کے خوشے پھوٹیں
پیلوں پیلوں سے جھولیں
بالیاں باغوں میں جھومیں
ہوائیں ہر آن پھیلائیں
اک۔ہی لگن
رقص امن رقص امن
سدائیں کانوں میں گونجنے لگی ہیں پھرچوپالوں کی
جھوک آباد کرو
شہروں کی
دیہاتوں کی
پھر وہی چمن شاد ہونے کو ہے
پوشاک کرو وہی زیب تن کہ
بھنگڑا چاپ لڈی سارے
ساز باجے سر راگ آلاپ
تیار ہیں کہ
آب ہو گا ہر آن رقص امن
رقص امن رقص امن
آو سجائیں پھر وہی چمن ہو جہاں
رقص امن
پروگرام کے اختتام پر مہمانوں میں ایوارڈ سندھی اجرکیں ، علاقائی کڑھائی پر مشتمل پرس کے تحائف پیش کئے گئے جبکہ تقریب میں شرکت کرنے والے طلباوطالبات میں اسناد تقسیم کی گئیں ۔ اس طرح سے تقریب ایک پُرتکلف چائے سے اختتام پذیر ہوئی ۔ جس کے دوران بات چیت میں شرکا نے ایسی سرگرماں جاری رھنے پر زوردیا
میڈم عبیدہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے کئی سال اسلام اباد رہنے کے دوران پہلی بار اپنے علاقے کی زبان رقص و ثقافت کی بات کسی تعلیمی ادارہ کے سیمینا مین سُنی ہے عام طور پر سیمینار میں مقررین کی روکھی سوکھی باتیں حاضرین کو تھکا دیتی ہیں لیکن آج دل کررہاتھا کہ ہر مہمان اور مقرر بلتاہی رہے سب کی باتیں میٹھی اور دل موہ لینے والی تھیں ۔ جس پر منتظمین کو مبارکباد پیش کرتے ہیں
سینئر صحافی علی جابر نے کہاکہ یہ محض ایک سیمینار نہپں بلکہ ایک رقص اور زبانوں پر فکری نشست کے ذریعئے ہمیں ہمارے مستقبل کو امن کی راہوں سے استوار کرنے کے لئے سوچ وچار پیدا کرنے کا یک پیغام ہے جسے ہم اپنے قلم کے ذریعئے عوام تک بھی پہنچائین گے اور اپنے گھروالوں کو بھی اج کی یاد گار شام کی روداد سنائیں گے، علی جابر نے یہ رپورٹ اسی روزاپنی ویب ساییٹس سمیت یگر پلیٹ فارم پر رضاکارانہ طور پر نشر کی جنکے ہم تہ دل سے ممنون ہیں ۔
سماجی کارکن فاطمہ انور کا کہناہے کہ مجھے اج یہاں اس رقص امن کے موضو ع پر منعقدہ آپ کی تقریب میں شرکت کرتے ہوئے لگا کہ اج کی شام مجھے میرے بچپن اور ماں کی لوریوں سہلیوں کے ساتھ کھیل کود اور گاناگانے شادی بیاہ کی رسومات اس دیسی ذندگی کی جانب لے گئی ہے جو جانے کہاں گم ہوگئی جس پر میں تمام منتطمین کی شُکر گزار ہوں ۔ منفرد انداز میں امن کا پیغام پہنچانے کے ساتھ ساتھ سٹریٹ چلڈرنز کو یونیرسٹیز کے طلبا و طالبات کے درمیان لانا اور معاشرے کو یہ باور کروانا کہ نظرانداز بچے کس قدر ٹیلنت سے بھرپور ہیں انہیوں ترقی کا مساوی موقع دیں امن کے اصل معمار یہ ہیں۔