Newsانسانیاتخبرنامہ

انصاف تک رسائی کانفرنس، اسلام آباد

لیگل ایڈ سوسائٹی کے تحت نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کے اشتراک سے "انصاف تک رسائی" کے نام سے ایک مشترکہ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ۔

 

۔

رپورٹ(عمرانہ کومل)

 

تقریب کا آغاز لیگل ایڈ سوسائٹی کی چیف ایگزیکٹو آفیسر بیرسٹر حیا ایمان زاہد نے ادارے کے تعارف سے کیا اور انھوں نے ادارے کے مختلف پروگرامز مثلا انصاف تک رسائی، موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات و ںقصانات ، صنفی مساوات اور بچوں کی حفاظت کے حوالے اب تک کی گئی کاوشوں سے تمام شرکاء کو آگاہ کیا-

 

اس کے بعد ۔محترمہ رخسانہ پروین کھوکھر( سینئر پروگرام مینیجر- لیگل اٰیڈ سوسائٹی) نے مقامی سطح پر مذہبی اقلیتی برادریوں کے قانونی مسائل کے حل  کے لئے کی جانے والی بروقت کوششوں کا تفصیل سے ذکر کیا –

انھوں نے بتایا  کہ گزشتہ دوسالوں کے دوران ادارے نے  سندھ کے مختلف اضلاع میں 315 افراد کی مفت قانونی نمائندگی کی اور انھیں قانونی امداد فراہم کی – قانونی آگاہی کے حوالے سے 16310 مذہبی اقلیتی کمیونٹی کے افراد کے  ساتھ تعلیم کی اہمیت، جائیداد سے متعلق مسائل، خواتین کے حقوق وغیرہ جیسے مسائل پر کلینک منعقد کیے۔

 

اس کے بعد اسسٹنٹ منیجر (ریسرچ) محترمہ بتول عابد میمن نے مذہبی اقلیتی طبقات کی مقامی سطح پر قانونی ضروریات اور انصاف حاصل کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے حوالے سے شواہد پر مبنی جامع تحقیق کا تعارف کرایا۔ جو کہ گزشتہ دو سالوں میں کی گئی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ  مذہبی اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے 324 افراد کا قانونی ضروریات کے جائزے کے حوالے  سے وسیع پیمانے پر سروے کیا گیا، اس کے علاوہ  ریاستی اداروں کے165مسلمان اہلکاروں سے ان کے مذہبی اقلیتی افراد سے متعلق موجود قوانین  اور طرز عمل کے حوالے سے انٹرویو کیے گئے جو کہ اپنی نوعیت کا ایک پہلا سروے تھا۔ اس سروے کا مقصد پاکستان میں رہنے والی مذہبی اقلیتی برادریوں کے ساتھ بلاواسطہ اور بالواسطہ امتیازی سلوک کی حد کو سمجھنا تھا۔ مزید برآں، عدالتوں کے انتظامی ڈھانچوں کی سطح پر مسائل کو جاننے کے لیے  مختلف کیس فائلوں کا تفصیلی تجزیہ کیا گیا جن میں خاندانی قوانین، چھوٹے جرائم، توہین رسالت، اور جبری تبدیلی مذہب کے مقدمات کی فائلوں کو شامل کیا گیا تھا۔

یہ تحقیقی نتائج مختلف سماجی کارکنوں اور ارکان پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیے گئے۔ ان نتائج کی بنیاد پر محترم راس مہتانی (ممبر، اقلیتی حقوق کمیٹی، سندھ ہیومن رائٹس کمیشن) اور محترمہ رخسانہ پروین کھوکھرنے انصاف کی راہ میں حائل قانونی، ثقافتی اور انتظامی رکاوٹوں پرکانفرنس میں موجود تمام شرکاء سے ایک معتدل گفتگو کی۔ اس گفتگو میں اقلتی افراد سے متعلق کچھ مروجہ امتیازی الفاظ یا زبان کے استعمال  ، 1869 کے مسحیی طلاق کے ایکٹ کی خامیاں، پاکستانی اسکولوں کے نصاب میں موجود خلاء اور مذہبی اقلیتی برادریوں کو انصاف اورا نتظامی شعبے کے اہلکاروں کے ہاتھوں بدسلوکی  جیسے واقعات سے متعلق اہم نکات شامل تھے

اس تمام گفتگو میں ایم پی اے انتھونی نوید، انسانی حقوق کی کارکن نبیلہ فیروز اور طاہرہ عبداللہ، اور رکن اقلیتی کمیٹی، سندھ انسانی حقوق کمیشن، محترمہ پشپا کماری نے بھی شرکت کی۔اس موقع پر تمام شرکاء نے ایک قانونی کمیشن کے قیام کے امکان پر تبادلہ خیال کیا اس کمیشن کا کام صرف مذہبی اقلیتی برادریوں کے حقوق کی نگرانی اور تحفظ کرنا ہو ہوگا جیسا کہ سپریم کورٹ نے بارہا سفارش کی تھی اور شعیب سڈل کی سربراہی میں ایک رکنی کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔

تاہم، اس دن کی خاص بات، سینٹر فار سوشل جسٹس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر محترم پیٹر جیکب صاحب کے زیر انتظام پینل ڈسکشن تھی۔ اس ڈسکشن میں ایم پی اے منگلا شرما اور سابق ایم این اے آسیہ ناصر جیسی معزز شخصیات نے شرکت کی۔

پارلیمانی سیکرٹری برائے قانون و انصاف محترمہ مہناز اکبر عزیز نے بھی تقریب میں شرکت کی۔ کلیدی تقریر کے دوران، انھوں نے ناروا سلوک کے بارے میں بات کی جس کا سامنا مذہبی اقلیتی برادریوں کو زندگی کے تمام شعبوں میں کرنا پڑتا ہے انھوں نے کہا کہ موجودہ ںظام میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے مذہبی اقلیتی برادریوں کو آئینی حقوق فراہم کرنے کو یقینی بنانے کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا اور شرکاء کواس بحث کو پارلیمنٹ کے ہالز میں لے جانے کی دعوت دی۔

آخر میں، محترمہ رابعہ جویری، چیئرپرسن،  نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس  نے اپنے اختتامی کلمات کہے۔ انھوں نے ایک کانونٹ میں طالب علمہ کے طور پر اپنے ذاتی تجربے اور انسانی حقوق کے لیے اپنی تنظیم کی وابستگی کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے اس تحقیق کے بارے میں بھی تفصیل سے بات کی جو کمیشن نے مذہبی اقلیتی برادریوں کو دیئے گئے حقوق کی موجودہ صورتحال پر کی ہے۔ اس موقع پر خاص طور پرانھوں نے 2014 کے مشہور تصدق جیلانی فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔.

اس تقریب میں انسانی حقوق کے مختلف کارکنوں، سول سوسائٹی کی تنظیموں کے نمائندوں اور صوبائی اسمبلیوں کے معزز اراکین جیسے جناب منظور مسیح ( اقلیتی ممبر، نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس پاکستان) اورمحترم کرشنن شرما (چیئرمین،۔ ہندو مندر مینجمنٹ کمیٹی، حکومت پاکستان) نے بھی شرکت کی۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button