ایک ایسے ملک میں جہاں صحافت عموماً خطرات میں رہتی ہے اور اسے کئی محاذوں سے حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، پاکستان میں میڈیا نے 2022 میں صحافیوں کے خلاف مقدمات کی بھرمار، ٹیلی ویژن چینل کی بندش، ایک صحافی کی ہلاکت اور ایک اور صحافی کا غیر ملکی سرزمین پر وحشیانہ قتل جس نے قوم کو ہلا کر رکھ دیا تھا، میڈیا ریگولیٹری اداروں کی جانب سے حد سے تجاوز اور سیاسی بیان بازی کے ذریعے میڈیا کے خلاف حملے شامل ہیں ۔
یہ پاکستان پریس فاؤنڈیشن (PPF) کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے اہم نتائج ہیں جن کا عنوان ہے “پاکستان 2022میں آزادی صحافت: مقدمات کی بھرمار، ایک ہائی پروفائل قتل اور میڈیا کو نشانہ بنانے والی سیاسی بیان بازی”۔
24 اکتوبر کو کینیا میں سینئر صحافی ارشد شریف کی ہلاکت کی خبر بریک ہوئی۔ ابتدائی طور پر کینیا کے میڈیا کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی مختلف توجیہات تھیں کہ شریف کی موت اس وقت واقع ہوئی جب انہیں “غلط شناخت” کے معاملے کی وجہ سے کار میں گولی مار دی گئی۔ موت کی تحقیقات کا آغاز کیا گیا اور فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے دسمبر میں اپنی رپورٹ میں بتایا کہ شریف کی موت “منصوبہ بند ٹارگٹ کلنگ کا کیس” تھا۔
اگرچہ شریف کی موت اور اس کے ذمہ داروں کے حوالے سے ابھی بہت کچھ بے نقاب ہونا باقی ہے، لیکن ان کے پاکستان سے باہر جانے اور آخرکار ان کے قتل کے عوامل ان کے کام سے قوی تعلق کو ثابت کرتے ہیں۔ اپنے خلاف مقدمات درج ہونے اور ایف آئی اے کی جانب سے ہراساں کیے جانے کی اطلاعات آنے کے بعد، شریف اگست میں پاکستان چھوڑ گئے تھے۔ اے آر وائی نیوز نے ارشد شریف سے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا تھا۔ قتل کے وقت وہ کینیا میں تھے۔
مقدمات کے اندراج سے شریف کی آزمائش اور ان کا پاکستان چھوڑنے کا حتمی فیصلہ اس خوف کے ماحول کی عکاسی کرتا ہے جس میں کہ میڈیا پاکستان میں کام کر رہا ہے۔ صحافیوں کو بغاوت کے الزامات سمیت مقدمات کا نشانہ بنایا جاتا ہے جو نہ صرف ایک قانونی مسئلہ بنتے ہیں بلکہ ان میڈیا ہاؤسز کے ساتھ ان کی ملازمت پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں جو احتیاط کے ساتھ کام کرتے ہیں تاکہ اقتدار میں رہنے والوں کو پریشان نہ کیا جا سکے۔
صحافیوں کو ہراساں کرنے کا یہ طریقہ کوئی نیا نہیں ہے اور اس سے پہلے بھی صحافیوں کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا ہے جس کے نتیجے میں نوکری سے برطرفی، اغوا، حملوں اور خوف اور خود اختیاری سنسرشپ کا عمومی ماحول پیدا ہوتا ہے۔
2022 میں، پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) نے اپنے کام کے سلسلے میں صحافیوں کی کم از کم 2 اموات ، 30 مختلف واقعات میں میڈیا پروفیشنلز پر جسمانی حملے، 2 میڈیا پروفیشنلز کے گھروں پر چھاپے اور ایک پریس کلب پر حملہ، دھمکیاں دینے کے ساتھ ساتھ آن لائن حملوں کے کم از کم 12 واقعات جن میں خواتین صحافیوں پر کیے گئے حملوں میں صنفی نوعیت کا حملہ، صحافتی کام کے سلسلے میں کم از کم 10 گرفتاریاں اور کم از کم 9 مختلف میڈیا پروفیشنلز کے خلاف مقدمات کا اندراج شامل ہے۔
میڈیا پروفیشنلز پر براہ راست حملوں کے علاوہ، پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) اور فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے کردار نے سخت اور سمٹتی ہوئی سرخ لکیروں کے اندر کام کرنے والے میڈیا کی تصویر کشی کی ہے۔
پورے سال کے دوران، پیمرا نے کوریج کے تمام موضوعات پر پابندی لگانے کی ہدایات جاری کیں جس کی وجہ سے عوام اہم معلومات سے محروم رہے اور صحافیوں کے کام کو بہت زیادہ دشوار بنا دیا۔ اس میں سابق وزیراعظم عمران خان کی لائیو تقاریر پر پابندی کا حکم بھی شامل ہے۔ پیمرا نے ستمبر میں اے آر وائی نیوز اور بول نیوز کی نشریات بھی عارضی طور پر معطل کر دی تھیں۔
ایف آئی اے میڈیا کے پیشہ ور افراد کے خلاف درج ہونے والے بہت سے مقدمات کا مرکز رہا ہے اور اس نے دوسروں کے خلاف بھی انکوائری شروع کی۔ یہ اس سال کے دوران اس وقت ہوا تھا جب تحقیقاتی ایجنسی کو ہائی کورٹ نے ایک صحافی ارشد شریف کو ہراساں کرنے سے روک دیا تھا، جو ان کی حد سے تجاوز کی حد تک پہنچنے اور صحافیوں کو ریاستی اداروں کے ہاتھوں ہراساں کیے جانے کی عکاسی کرتا ہے۔
2022 کے دوران، سیاسی تبدیلی اور سیاسی پیش رفت سے بھرپور سال نے میڈیا کے کام کو متاثر کیا۔ مقدمات درج ہوئے اور صحافیوں کو گرفتار کیا گیا۔ ایسی ہی ایک مثال میں، 5 جولائی کو ایکسپریس نیوز کے اس وقت کے اینکر پرسن عمران ریاض خان کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ان کے قانونی وکیل کے مطابق خان کے خلاف غداری کے 17 مقدمات درج کیے گئے تھے۔
سیاسی ہلچل سے براہ راست زیادہ متعلق، وفاقی حکومت سے ہٹائے جانے کے بعد، سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے لانگ مارچ سمیت احتجاج، اس تقریب کی کوریج کرنے والے میڈیا کے خلاف بڑے پیمانے پر تشدد کی کارروائیوں کا باعث بنے۔ مئی میں پی ٹی آئی کے جلسوں کے دوران میڈیا کے خلاف تشدد کے کم از کم چھ مختلف واقعات ریکارڈ کیے گئے۔
سب سے زیادہ دل دہلا دینے والی بات یہ تھی کہ ایک خاتون صحافی صدف نعیم جو کہ چینل 5 ٹیلی ویژن کی رپورٹر تھی، پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان کو لے جانے والے کنٹینر کی زد میں آکر ہلاک ہوگئی۔ یہ واقعہ میڈیا کارکنوں کو فراہم کی جانے والی حفاظتی طریقہ کار کی تربیت کی کمی کی ایک المناک یاد دہانی ہے۔ یہ حفاظتی قانون سازی کی ضرورت کی یاددہانی کے بطور بھی ہے جس کو لاگو کیا جائے اور اسے موثر بنایا جائے تاکہ فیلڈ میں کام کرتے ہوئے صحافیوں کو محفوظ بنایا جا سکے۔
سیاسی جماعتیں اور ان کے سربراہ میڈیا کے خلاف تشدد کو ہوا دینے کا ذریعہ ثابت ہوئے۔ ملک سیاسی تضادات کے عروج پر ہے، سیاسی جماعتوں کی قیادت میں بیان بازی میڈیا کے امتیازی تضادات سے سامنے آئی ہے۔
عمران خان نے وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی میڈیا کے ارکان کو مافیا اور بلیک میلر قرار دیا۔ انہوں نے میڈیا کے خلاف مسلسل ہتک آمیز زبان استعمال کی اور حال ہی میں خواتین صحافیوں کے خلاف حملوں کی جنسی نوعیت کو واضح کیا جب انہوں نے یہ مفہوم اخذ کیا کہ غریدہ فاروقی مردانہ حصوں میں داخل ہو کر ہراساں کرنے کے لیے اکسا رہی تھیں۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کی قیادت میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی سربراہی میں نئی حکومت کے باوجود آزادی صحافت کی حالت میں بہت کم بہتری دیکھی گئی ہے۔ نئی حکومت تنقید کو قبول کرنے اور میڈیا کی آزادی کو یقینی بنانے کے بڑے وعدوں کے ساتھ برسراقتدار آئی لیکن اس وقت پاکستان میں میڈیا پر مسلسل حملے حقیقت کی ایک مختلف تصویر پیش کر رہے ہیں۔
مکمل رپورٹ کا لنک یہاں دستیاب ہے:
https://www.pakistanpressfoundation.org/