تمباکو کے جدید آلات کو قانونی حیثیت دینے سے پاکستانی بچوں کو لاحق خطرات میں اضافہ ہوگا
سوسائٹی برائے تحفظ حقوق اطفال (سپارک) کے زیر اہتمام ایک مکالمے میں، صحت پر کام کرنے والے سماجی کارکنوں کا تشویش کا اظہار
اسلام آباد: عمرانہ کومل
- سوسائٹی برائے تحفظ حقوق اطفال (سپارک) کے زیر اہتمام ایک مکالمے میں، صحت پر کام کرنے والے سماجی کارکنوں نے تشویش کا اظہار کیا کہ وفاقی کابینہ نے تمباکو کے جدید آلات یعنی ہیٹڈ ٹوبیکو پروڈکٹس ایچ-ٹی-پی کو ریگولرائز کرنے کے لیے ایس آر او کی منظوری دے دی ہے۔ تمباکو کنٹرول کرنے والے کارکنوں اور ماہرین صحت کے مطابق یہ فیصلہ پاکستانی بچوں کو شدید خطرے میں ڈال دے گا۔
ملک عمران احمد، کنٹری ہیڈ، کمپین فار ٹوبیکو فری کڈز (سی ٹی ایف کے)، نے کہا کہ یہ فیصلہ تمباکو کی دیگر مصنوعات جیسے ای سگریٹ اور نیکوٹین پاؤچز کو قانونی حیثیت دلوانے میں مدد کرے گا۔ اس فیصلے سے 13-15 سال کی عمر کے درمیان کے بچوں اور خواتین کو آسانی سے دستیاب ہونے کی وجہ سے تمباکو کا استعمال شروع کرنے کی ترغیب ملے گی، جس کے نتیجے میں یہ زیادہ بیماریوں اور اموات کا سبب بنے گا۔ پاکستان میں تمباکو سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے سالانہ تقریباً 170,000 افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں تمباکو کا استعمال ایک وبائی مرض بن چکا ہے اور 31 ملین سے زیادہ لوگ کسی نہ کسی شکل میں تمباکو کا استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے بچوں کے مستقبل کو تباہ کرنے کی کوشش کرنے والی اس صنعت کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھایا گیا تو مزید پاکستانی بچے تمباکو کا شکار ہوں گے اور اس کی لپیٹ میں آ جائیں گے۔
ڈاکٹر ضیاء الدین اسلام کنٹری لیڈ، وائٹل سٹریٹیجیز نے اظہار خیال کیا کہ تمباکو کی صنعت کی طرف سے شروع کی جانے والی نکوٹین پر مبنی مصنوعات نشہ آور ہیں اور نوجوان صارفین کے لیے طویل مدتی صحت کے خطرات کا باعث بن سکتی ہیں۔ یہ مصنوعات اپنی وسیع آن لائن موجودگی اور تشہیری مہمات کی وجہ سے بچوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمباکو سے پیدا ہونے والی غیر متعدی بیماریوں کی وجہ سے صحت پر بوجھ بڑھ گیا ہے اور جدید مصنوعات کی اجازت دینے سے صحت کی دیکھ بھال کی لاگت میں اضافہ ہو گا جو معیشت کے لیے تباہ کن ہے۔
خلیل احمد ڈوگر، پروگرام مینیجر اسپارک نے کہا کہ پاکستانی بچوں کی صحت اور مستقبل کو محفوظ بنانا حکومت کی اولین ترجیح ہونا چاہیے ایسے وقت میں جب ہماری معیشت اور صحت کا نظام مشکلات کا شکار ہے۔ پاکستان نیوزی لینڈ کی مثال سے سبق سیکھ سکتا ہے جو سگریٹ نوشی کی قانونی عمر میں لگاتار سالانہ اضافہ نافذ کرنے والا پہلا ملک بن گیا ہے۔ ہیں بھی اسی طرح کی طویل المدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے کہ ہماری آنے والی نسلیں تمباکو کے نقصانات سے محفوظ رہیں۔