Uncategorized

ایچ آر سی پی کی کانفرنس نے مقامی حکومتوں کو تحفظ دینے کے لیے دستوری ترمیم کا مطالبہ کیا ہے

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے (ایچ آر سی پی) فریڈرک نومان فاؤنڈیشن (ایف این ایف) کے اشتراک سے ایک قومی کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ مقامی حکومتوں کی ساخت اور مدت کو تحفظ دینے کے لیے دستور میں ترمیم کی جائے تاکہ مقامی ادارے مالیاتی عدم مرکزيت کی بدولت مؤثر طریقے سے اپنے فرائض نبھا سکیں۔

اسلام آباد(رپورٹ عمرانہ کومل)

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے (ایچ آر سی پی) فریڈرک نومان فاؤنڈیشن (ایف این ایف) کے اشتراک سے ایک قومی کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ مقامی حکومتوں کی ساخت اور مدت کو تحفظ دینے کے لیے دستور میں ترمیم کی جائے تاکہ مقامی ادارے مالیاتی عدم مرکزيت کی بدولت مؤثر طریقے سے اپنے فرائض نبھا سکیں۔

کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے، پاکستان میں ایف این ایف کی سربراہ بریگٹ لم نے کہا کہ مقامی حکومتیں ‘جمہوریت کی نرسریاں’ ہوتی ہیں۔ ایچ آر سی پی کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق نے کہا کہ مؤثر اور مالی لحاظ سے خودمختار مقامی حکومتوں کے بغیر مستحکم جمہوریت کا قیام ممکن نہیں۔

لمز میں سیاست و عمرانیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عمیر جاوید نے پہلے سیشن کے دوران واضح کیا کہ آرٹیکل 140- الف مقامی حکومتوں کے لیے مؤثر تحفظ نہیں ہے، اور مزید کہا کہ صوبائی حکومتوں کے بلدیاتی اور قانون سازی سے متعلق ذمہ داریوں میں واضح لکیر کھینچنے کی ضرورت ہے۔ حامد خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایم پی ایز اور ایم این ایز مقامی حکومتوں کے ‘غیرضروری’ حریف بن گئے ہیں اور تجویذ دی کہ ترقیاتی فنڈز صرف مقامی حکومت کے اداروں کو دیے جائیں۔

پنجاب کمیشن برائے حقوقِ نسواں کی سابق چیئرپرسن فوزیہ وقار نے زور دے کر کہا کہ مقامی حکومتوں میں عورتوں کی شمولیت محض خانہ پُری کے لیے نہیں ہونی چاہیے۔ بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی انجنيئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز میں شعبہ معیشت کے پروفیسر ڈاکٹر عزیز احمد نے سیاسی و مالیاتی عدم مرکزیت کے بیچ ‘بے ہنگم تعلق’ کی نشاندہی کی اور کہا کہ مؤخر الذکر صنفی اور معاشی عدم برابری کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

دوسرے سیشن کے دوران، آئیڈیاز فار وِ‍ژن 2047 کے چیف ایگزیکٹو ظفر اللہ خان نے کہا کہ مقامی حکومتوں کو اپنے امور چلانے کے لیے قواعد و ضوابط بنانے کا اختیار ملنا چاہیے۔ ایچ آر سی پی سندھ چیپٹر کے وائس چیئر قاضي خضر نے کہا کہ اگرچہ قانون نے خواجہ سراؤں اور مذہبی اقلیتوں جیسے پسے ہوئے طبقوں کے لیے مخصوص نشستوں کا بندوبست کیا ہوا ہے‎ مگر اِس کے باوجود اُنہیں مقامی حکومتوں میں براہ راست انتخابات کے ذریعے نمائندگی سے محروم نہیں ہونا چاہیے۔

کے پی اسمبلی میں پی پی پی کے رُکن اسمبلی احمد کندی نے تجویذ دی کہ دستوری عدالتوں کے قیام سے مقامی حکومتوں کو تحفظ دیا جا سکتا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کے وکیل مبین الدین قاضی نے اُن کے تسلسل کو دوام بخشنے کے لیے آئینی ڈھانچے کی ضرورت اجاگر کی جبکہ سنٹر فار پیس اینڈ ڈیویلپمنٹ کے چیف ایگذیکٹو نصر اللہ خان کا کہنا تھا کہ مقامی حکومتوں کی مالیاتی جوابدہی پر نظر رکھنے اور مقامی نمائندوں کی صلاحیت میں بہتری لانے کے لیے کوئی مؤثر نظام متعارف کروایا جائے۔

وزیرِِ اعظم کے معاون خصوصی عطا اللہ تارڑ نے تیسرے سیشن میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ مقامی حکومتوں کے تمام قوانین کے لیے صوبائی حکومت میں دو تہائی اکثریت لازمی قرار دینے کے لیے قانون سازی کی جائے تاکہ مقامی حکومت کے اداروں کو باآسانی معطل نہ کیا جا سکے۔ کے پی اسمبلی میں اے این پی کی رُکن ثمر ہارون بلور نے تجویز دی کہ مقامی حکومتوں کے انتخابات جماعتی بنیادوں پر کیے جائیں تاکہ ووٹروں کو علم ہو کہ اُن کے حمایت یافتہ نمائندوں کی سیاسی اقدار کیا ہیں۔

پی پی پی سنٹرل سیکرٹریٹ کے انچارج سبط الحیدر بخاری کا کہنا تھا کہ درست ووٹر لسٹ ضروری ہے۔ ایم کیو ایم سندھ اسمبلی کے رکن خورشید نے اتفاق کیا کہ مردم شماری میں تصحیح کی ضرورت ہے تاکہ ووٹر لسٹیں اور حلقہ بندیوں کو مزید بہتر کیا جا سکے۔ پی ٹی آئی کی پارٹی الیکشن کمیٹی کی رکن فاطمہ حیدر کا کہنا تھا مقامی حکومتوں کے امور میں صوبائی اسمبلیوں کی مداخلت روکنے کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button