Uncategorized

پاکستان میں ذیابیطس کا مرض ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر چوتھا شخص ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہے۔ اس حساب سے تقریبا ڈیڑھ کروڑ سے زائد پاکستانی اس بیماری کا شکار ہیں دنیا بھر میں ذیابیطس کا عالمی دن منایا گیا۔

یہ فریڈرک بینٹنگ کا یوم پیدائش بھی ہے جنہوں نے انسولین ایجاد کی

رپورٹ۔ عمرانہ کومل                                                                                                              پاکستان میں ذیابیطس کا مرض ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر چوتھا شخص ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہے۔ اس حساب سے تقریبا ڈیڑھ کروڑ سے زائد پاکستانی اس بیماری کا شکار ہیں دنیا بھر میں ذیابیطس کا عالمی دن منایا گیا۔

 

                                                                              واضح رہے کہ

دنیا بھر میں ذیابیطس سے بچاؤ کا عالمی دن نومبر کی 14 تاریخ کو منایا جاتا ہے، یہ فریڈرک بینٹنگ کا یوم پیدائش بھی ہے جنہوں نے انسولین ایجاد کی، اس طرح اس دن اس عظیم ماہر طب کو خراج تحسین بھی پیش کیا جاتا ہے، مگر اس دن کا بنیادی مقصد ذیابیطس کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنا ہے۔ دنیا بھر میں چونتیس کروڑ سے زائد افراد اس بیماری میں مبتلا ہیں اور جاں بحق ہونے والا ہر پانچواں فرد ذیابیطس میں مبتلا ہوتا ہے۔ شوگر کی بیماری سے ہرآٹھ سیکنڈ میں ایک شخص کی موت واقع ہو رہی ہے۔ اس بیماری کی وجہ سے ہونے والی اسی فیصد اموات کا تعلق غریب اور درمیانی طبقہ سے ہے۔ ہمارا ملک پاکستان ان ممالک میں شامل ہے، جہاں ذیابیطس کے مرض میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ سے بھی زیادہ ہے۔ ذیابیطس کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں ساتویں نمبر پر ہے۔

واضح رہے کہ عالمی ذیابیطس فیڈریشن کے مطابق، تقریباً ہر تیسرا بالغ پاکستانی باشندہ ذیابیطس میں مبتلا ہوچکا ہے۔ (یاد رہے کہ عالمی اوسط ہر دس میں سے ایک فرد ہے)۔
یہ اوسط بہت زیادہ ہے اور اس کی بدولت، پاکستان دنیا میں ذیابیطس کے مریض رکھنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک بن گیا ہے۔ اگر آبادی کی مناسبت سے شرحِ اضافہ کو دیکھا جائے تو ہم ذیابیطس میں دنیا میں پہلے نمبر پر ہیں۔
عالمی ذیابیطس فیڈریشن کا اندازہ ہے کہ 2021ء تک پاکستان میں تقریباً تین کروڑ تیس لاکھ لوگ، ذیابیطس کے شکار تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اضافی ایک کروڑ سے زیادہ لوگ ایسے بھی ہیں جو ذیابیطس کے خطرے کی زد میں ہیں اور انہیں ذیابیطس ہوسکتی ہے۔ ان میں بے شمار ایسے ہیں، جن کو پتا ہی نہیں کہ ان کو ذیابیطس ہوچکی ہے کیونکہ ان کو علاج معالجے اور تشخیص کی سہولتوں تک رسائی ہی نہیں ہے۔ اگر ان ‘نامعلوم’ لوگوں کو بھی شامل کیا جائے تو یہ تعداد بہت زیادہ بڑھ جائے گی۔
صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے اور اگر سرکاری سطح پر اس ضمن میں توجہ نہ دی گئی تو پاکستان میں 2045 ءتک یہ تعداد چھ کروڑ بیس لاکھ افراد تک پہنچ جائے گی۔
اور بات صرف بیماری کی نہیں ہے۔
اب ذیابیطس وبا کی طرح پھیل رہی ہے اور خاموش قاتل کی مانند گھات گھر گھر میں لگا رہی ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ پاکستان میں روزانہ تقریباً 1100 افراد ذیابیطس کی وجہ سے، یا اس کی بنا پر ہونے والی پیچیدگیوں کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔گویا اوسطاً سالانہ چار لاکھ سے زیادہ اموات صرف ذیابیطس یا اس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے باعث ہورہی ہیں۔
ذیابیطس بڑھنے کی کئی وجوہات ہیں تاہم بیشتر ماہرین طب اس نکتے پر متفق ہیں کہ ذیابیطس کے پھیلائو میں میٹھے مشروبات یعنی کولڈ ڈرنکس، جوسز، سوڈا، کولا، مصنوعی ذائقوں والے دودھ، انرجی ڈرنکس، آئس ٹی اور ایسے ہی دیگر مشروبات نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ جدید طبی تحقیق کے مطابق ان جیسے میٹھے مشروبات کے باقاعدہ استعمال سے ٹائپ ٹو ذیابیطس کا خطرہ تیس فی صد تک بڑھ جاتا ہے

پاکستان میں ذیابیطس کا مرض ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر چوتھا شخص ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہے۔ اس حساب سے تقریبا ڈیڑھ کروڑ سے زائد پاکستانی اس بیماری کا شکار ہیں۔ پاکستان میں ہر سال تقریبا 88ہزار لوگ ذیابیطس میں مبتلاہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔نیشنل ڈائبیٹک سروے آف پاکستان کی جانب سے فروری 2016 سے اگست 2017 تک ملک کے چاروں صوبوں کے شہری و دیہی علاقوں میں ایک سروے کیا گیا تھا، جس کی رپورٹ 2018 کے برٹش میڈیکل جرنل میں بھی شائع ہوئی۔

اس سروے کے مطابق پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد اس وقت تک 26.3فیصد تھی، جن میں19.2فیصد مریض اپنے مرض سے آگاہ تھے جبکہ 7.1فیصد افراد میں اس مرض کی پہلی مرتبہ تشخیص ہوئی۔ واضح رہے کہ 1998میں شائع ہونے والے سروے کے مطابق یہ شرح22.04فیصد تھی اور اس سروے کا ایک خطرناک پہلو یہ بھی تھاکہ ان افراد میں سے تقریبا 15فیصدپری ذیابیطس تھے یعنی وہ اس مرض میں مبتلا ہونے کے قریب تھے ۔ذیابیطس کے مرض میں مبتلا شخص کو خود اپنا خیال رکھنا اور وقت پر انسولین لینے ضروری ہے۔

لیکن گھر کے دیگر افراد کو بھی مریض کی دیکھ بھال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ اپنی ذمہ داری پوری کرکے مریض کی شوگر کنٹرولرکھنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اگر آپ کے گھر میں کوئی ذیابیطس کا مریض ہے تو ذیل میں درج کچھ احتیاطی تدابیر پرعمل کرکے آپ اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھا سکتے ہیں۔ مریض کو وقت پر دواضرور دیں۔ اگر مریض دوا کھانے میں احتیاط نہیں کرے گا تو اسے دل کی بیماری، اعصابی نقصان اور دیگر پیچیدہ بیماریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے۔

ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق دوا یا انسولین دینے کے لیے وقت کی پابندی کرنا لازمی ہے۔ ذیا بطیس کے مریض کو باہر کا غیرصحت بخش کھانا دینے سے پرہیز کریں کیونکہ اس میں بہت زیادہ کیلوریز اور فیٹ ہوتا ہے۔ مریض کے لیے گھر میں کھانا بنے گا تو اس میں شامل کیے جانے والیاجزا ءکے بارے میں خاص خیال رکھا جائے گا۔ خون میں شوگر کی سطح کومعمول پر رکھنے کے لیے مریض کے وزن اور اس کے کھانے کا ایک ریکارڈ بنائیں تا کہ گھروالوں کو معلوم رہے کہ مریض کو کب کونسا کھانا دینا ہے، اس سے شوگر کنٹرول کرنے میں مدد ملتی ہے۔ مریض کو ہر وقت کچھ نہ کچھ تو کھانا ہی ہوتا ہے مگر کیا کھاناہے ، کب کھانا ہے یا جو کچھ کھایا وہ کتنا کھایا، یہ سب نوٹ کریں۔چٹ پٹی اشیا اورچٹخارے دار ناشتہ مریض کے خون میں گلوکوز کی سطح میں اضافہ کرسکتاہے۔

جب ذیابیطس کا مریض کئی گھنٹے کھانا نہیں کھاتا تواس کا جسم خود بخود گلوکوز کو مریض کے جگر سے جاری کردیتا ہے۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ تمباکو نوشی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ ذیابیطس کے مرض میں مبتلا شخص کو اس سے ہر ممکن پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے خون میں گلوکوز کی سطح بڑھنے کا امکان ہوتا ہے اور یہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے خطرے کا باعث ہو سکتا ہے۔ذیابیطس کی بیماری اعصابی امراض کا بھی باعث ہوسکتی ہے۔ یہ مرض بعض اوقات پائوں سے ہوتا ہے۔

ذیابیطس کے مریض کے پائوں کی اچھی طرح سے دیکھ بھال ضروری ہے، لہذا ان کے پاوں نیم گرم پانی سے دھلواتے رہیں۔ وہ آرام دہ اور محفوظ جوتا استعمال کریں، پائوں پر کوئی معمولی سا زخم بھی نہ آنے دے، تاہم ایسا ہونے کی صورت میں فوری طور پر ماہر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ ذیابیطس کے مریض کے علاوہ آپ کو بھی مستعد رہنا چاہیے تاکہ کسی بھی پیچیدہ صورتحال میں فورا ً ڈاکٹر سے رجوع کیا جاسکے۔ ذیابیطس کے مریضوں کو اپنی صحت برقرار رکھنے کے لیے ہفتے میں پانچ دن 30منٹ کے لیے تنہااور طبی آلات کے ساتھ ورزش کرنی چاہیے۔ باقاعدگی سیورزش کرنا وزن میں کمی، جسم کی چربی میں کمی، خون میں شوگر کنٹرول کرنے اور انسولین کے لیے بہترین ہے۔

ایسا نہیں کہ ذیابیطس میں اضافے کا خطرہ صرف پاکستان کو ہی درپیش ہے۔ دنیا کے کئی ممالک اس مسئلے سے دوچار ہیں۔ تاہم انہوں نے اس سیلاب کے سامنے حفاظتی بند باندھنے شروع کردئیے ہیں۔ ان ملکوں نے میٹھے مشروبات کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے ذیابیطس کے مرض میں اضافے کو روکنے کے لیے، اضافی ٹیکسوں کی حکمت عملی اختیار کی ہے۔

یہ حکمت عملی نہایت مفید ثابت ہوئی ہے اور دیکھا گیا ہے کہ شکر والے مشروبات پر ٹیکس لگانے یا بڑھانے سے ان کے استعمال اور ٹائپ 2 ذیابیطس کو کم کرنے میں مدد ملی ہے۔
ٹیکسوں کے نفاذ کی بدولت حاصل ہونے والے فوائد کو سامنے رکھتے ہوئے، اب دنیا بھر میں پچاس سے زیادہ ملکوں میں میٹھے مشروبات پر ٹیکس لگائے گئے ہیں تاکہ ان کی قیمت بڑھے اور ذیابطیس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے

اگر آپ بھی پاکستان میں ذیابیطس کے پھیلائو کو روکنا چاہتے ہیں تو اس پیغام کو عام کرنے میں مدد کریں اور اس یومِ ذیابیطس پر، عوام کی جانب سے وزارت خزانہ اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے مطالبہ کریں کہ پاکستانیوں کی قیمتی جانیں بچانے کے لیے، تمام اقسام کے شکر والے مشروبات پر ٹیکس میں فوری اضافہ کیا جائے۔
#taxsugarydrinkstofightdiabetes
اگر آپ کو پاکستان میں ذیابیطس سے متعلق مزید معلومات کی ضرورت ہے تو ذیل میں موجود لنک پر کلک کریں۔
http://www.diabetesatlas.org/

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button