بد قسمتی سے ہم نے ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا کہ بچے کی پیدائش کی خوشی سے لے کرکسی پیارے کی وفات تک ہر جگہ ہر تقریب میں میٹھا شامل ہے. گورنر پنجاب
گورنر پنجاب نے کہا اس مرض کے حوالے سے پاکستان تیسرے نمبر پر ہے نوجوان اس مرض کا تیزی سے شکار ہو رہے ہیں
اسلام آباد ( عمرانہ کومل)پاکستان میں ایک تہائی ابادی شوگرمرض میں مبتلا ،نو جوانوں کی اکثریت ہمیں اپنا کلچر تبدیل کرنا ہوگا ،مرض پر قابو پانے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ،غریب لوگ وسائل کی کمی سے علاج نہیں کرا سکتے، ٹی ڈی سی کی طرح پنجاب کے تمام مراکز صحت پر علاج اور ٹیسٹ کی سہولت ہونی چاہیے ۔ان خیالات کا اظہار گورنر پنجاب سلیم حیدر نے شوگر سے اگہی بارے “دی ذیابیطس سینٹر” اسلام اباد میںمنعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔
گورنر پنجاب نے کہا اس مرض کے حوالے سے پاکستان تیسرے نمبر پر ہے نوجوان اس مرض کا تیزی سے شکار ہو رہے ہیں ۔ہمیں انفرادی کوششوں کے ساتھ اجتماعی کوششوں کی بھی ضرورت ہے ۔ذیابیطس کے حوالے سے آگہی کی کوششوں کو مختلف کمیونیٹیز تک پھیلایا جائےاور سیشنز کا انعقاد کیا جانا بہت ضروری ہے ۔انہوں نے کہا بد قسمتی سے ہم نے ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا کہ بچے کی پیدائش کی خوشی سے لے کرکسی پیارے کی وفات تک ہر جگہ ہر تقریب میں میٹھا شامل ہے ۔یہی خطرناک عمل اس مرض کی طرف تیزی سے لے جا رہا ہے ۔انہوں نے کہا اس مرض سے پاکستان کو بچانے کے لیے ہمیں اپنا کلچر تبدیل کرنا ہوگا۔گورنر پنجاب نے کہا خواہش اور کوشش ہے کہ پاکستان کے تمام طبی مراکز میں ٹی ڈی سی کی طرز پرعام اور غریب شہریوں کے لیے شوگر کے تمام ٹیسٹ اور علاج جیسی سہولت میسر ہو کیونکہ وسائل کی کمی کی وجہ سے غریب طبقہ علاج نہیں کروا سکتا ۔اس موقع پر ٹی ڈی سی میں مرض سے اگاہی بارے واک کا اہتمام بھی کیا گیا ۔
گورنر پنجاب نے آئی پی ڈی کا افتتاح بھی کیا ۔
اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف آپریٹنگ افیسرٹی ڈی سی ڈاکٹر ساجد محمود اشرف نے کہا تقریب کامقصد شوگر کے مرض کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابو پانا اور اس مرض کی پیچیدگیوں سے متعلق آگاہی پیدا کرنا ہے۔ورزش فائدہ مند ہوتی ہے اور یہ عادت ذیابیطس ٹائپ 2 جیسے مرض سے بھی تحفظ فراہم کرتی ہے۔۔
30 منٹ کی ایروبک ورزش سے فوری طور پر بلڈ گلوکوز کی سطح بہتر ہوتی ہے جبکہ انسولین کی حساسیت بڑھتی ہے جس سے طویل المعیاد بنیادوں پر ذیابیطس ٹائپ 2 سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔ہر دو میں سے ایک فرد جان لیوا مرض کا شکار ہے ۔بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں ۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر نزہت کا کہنا تھا ملک میں ذیابیطس کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے اور مریضوں کی ایک بڑی تعداد ذہنی دباؤ، ڈپریشن اور دیگر نفسیاتی مسائل سے دوچار ہے۔
اس بیماری کے جسمانی اور ذہنی اثرات شدید ہیں ۔انہوں نے کہا پاکستان میں ذیابیطس کے 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد مریضوں میں سے 78 فیصد افراد ذہنی صحت کے مسائل کا شکار ہیں۔
ممبر بورڈ اف ڈائریکٹر ٹی ڈی سی محمود موسی نے اپنے خطاب میں کہا شوگر پر قابو پانے سے متعلق ہم بار بار اس لیے کہہ رہے ہیں کہ ابتدا ہی میں پیچیدگیوں سے بچا جاسکے اور دل کا عارضہ یا دیگر بیماریاں لاحق نہ ہوں۔
اپنی خوراک میں بہت زیادہ میٹھا شامل کر کے ہم اپنی صحت سے خود دشمنی کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔مرض سے بچنے کے لیے جہاں میٹھا کم کرنا ہوگا وہیں واک بھی بہت ضروری ہے اور یہ کسی بھی وقت کی جا سکتی ہے
ماہر غذائیت پروفیسر شہزاد بسرہ نے
کہا غلط تصور ہے کہ کھانے کے ساتھ پھل کھائے جائیں، پھل کا استعمال کھانے کے دو گھنٹے بعد ہونا چاہیے کیونکہ کاربوہائیڈریٹس کےساتھ مل کر وہ شوگر لیول بڑھا دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گھر کے تمام افراد کو کچی سبزیوں یا ان کا سلاد بناکر ضرور کھانا چاہیے اور زندگی کو نظم وضبط کے مطابق گزاریں، کھانے کے وقت کھانا، نیند کے وقت بھرپور نیند اور ورزش کو اپنے معمول کا حصہ بنائیں۔
بکائی یونیورسٹی کراچی کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر زاہد میاں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا
غیر صحت مند طرز زندگی، غیر صحت بخش غذائیں، کم ورزش اور موٹاپے جیسے عوامل ذیابیطس کی شرح میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں، خاص طور پر نوجوانوں میں اس بیماری کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔
ان کے مطابق انٹرنیشنل ڈائبٹیز فیڈریشن کے سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ 72 فیصد افراد ذیابیطس سے پیدا ہونے والے ممکنہ پیچیدگیوں سے خوفزدہ ہیں جبکہ 69 فیصد کو ضروری ادویات اور سپلائیز تک رسائی میں مشکلات کا سامنا ہے۔انہوں نے بتایا کہ 65 فیصد مریضوں کو طبی پیشہ ور افراد سے محدود مدد ملتی ہے اور 62 فیصد لوگ روزمرہ کی ذیابیطس مینجمنٹ کی ضروریات سے دباؤ محسوس کرتے ہیں، اس بوجھ کے باعث کئی افراد تنہائی کا شکار ہیں ۔پاکستان کو اس خطرناک مرض سے بچانے کے لیے ہمیں اجتماعی طور پر کوشش کرنی ہوگی