جانے کب ہوں گے کم بھٹہ مزدوروں کے غم۔۔۔ شناخت نہیں ووٹ کاحق نہیں اپنی محرومیوں کا ذمہ دار کسے ٹھہرائیں
چادر چار دیواری سے محروم دوسروں کے گھروں کے لئے اینٹیں بناتی کم سن دلہن اپنی جنت اپنے گھر کے خواب دیکھتی ہے ۔ ۔
ا
آزاد ملک کے غلام ۔۔۔ نسل در نسل پیشگیوں کے شکاربھٹہ مزدور لڑکیاں کئی نسلوں سے خواب ہی دیکھتی آئی ہیں ۔ تحریر و تحقیق ۔ عمرانہ کومل
پروین نے لکڑی کی چارپائی میں کپڑے کے بنے جھولے سے 6ماہ کی بیٹی کو روتے ہوئے اٹھایا اور ساتھ ہی کہنے لگی کرم جلی جب دیکھعروتی رہتیہے دودھ نہ آئے تو میں کیاکروں ۔۔فیڈر میں پانی ڈال کردوں میٹھا بھی کروں چینی ڈال کر تب بھی نہیں پیتی۔۔ جیسے کسی محل میں پیداہوئی ہو۔۔ساتھ ہی رونے لگی۔۔ معصوم بچی کو پکارنے اور پچکارنے لگی۔۔ میری بھاگ بھری۔۔ کاش میں تیکوں سچی مُچی داگھر ڈیوا۔۔ میرے کول پلنگ ہوئے ۔۔ تیراجھلوناہوے ۔۔ کھلونے ہون ۔۔ ساڈا وہ گھر ہوئے۔۔۔ یہ سب بولتے بولتے اپنی بیٹی کو ایک بار پھرسلاکر پروین انیٹین بنانے کے لئے اپنی ساس نندوں اور خاندان کے دیگر افراد کے پاس چلی گئی۔۔۔ اس کی ماں اور منیکہ بھی ادھر ہی بھٹہ پرکام کرتاہے بس ماں نے بیٹی کو عدم تحفظ سے نجات دلانےکے لئے 13 سے 14 سال کی عمر میں بیاہ دیا۔۔ اور ان کے خاندان کا رواج بھی تو یہی ہے ۔۔ اس کی ماں ۔۔ جیون مائی۔۔ بھی چھوٹی عمر میں ہی یاہی گئی اور اس کی نانی بھی ۔۔
پروین کا کہناہے کہ اس کے خاندان کی عورتیں کئی نسلوں سے اپناگھر کے خواب دیکھتی لوگوں کے گھروں کی اینٹیں بناتی ہیں ۔۔ جانے کب ان کو اپنا گھر اپنی جنت نصیب ہوگی۔۔ پروین سمیت اس کے خاندان کی لڑکیاں پڑھناچاہتی ہیں لیکن تعلیم کے زیور سے محروم ہیں ۔
ہزاروںبھٹوںپرانتہائی قلیل اجرت پر چودہ سے سولہ گھنٹے کام کرنے والی دس سے سترسال تک کی عورتیںاستحصال،جبر اور تلخ حالات کارکاشکارہیں۔بھٹہ مالکان کے بدترین استحصال،غربت کی دلدل اور سودی قرضوںکے عذاب نے ان کی زندگی کواجیرن بنارکھاہے مگراس صورت حال سے بچ نکلنے کاکوئی راستہ نہیں بھاگ جائیں توظالم بھٹہ مالکان سودی قرضے کوجواز بناکربہیمانہ تشددکرتے دھمکیاںدیتے واپس بھٹے پرلاکھڑاکرتے ہیں۔مظلوم عورتیںاجرت میںاضافے یامعمولی قرضوںکے بھاری سودکی معافی کی بات کریں تواس ’’جرت‘‘کی انہیں عبرتناک سزادی جاتی ہے۔
کم عمری کی شادیاں کم سنی میں حاملہ ہونا ایک کے بعد دوسرا دوسرے کے بعد تیسرا بچہ پیداکر کر کہ پرون کی ماں کی طرح بیماریوں کا شکارہونا ان کا مقدر ہے ۔ علاج معالجہ کی کوئی سہولت میسرنہیں جس سے اینٹوںکی تیاری کے دوران لگنے والے زخم مدتوںرستے رہتے ہیں
ان کے بچے بھی ان ساتھ کئی کئی گھنٹے کام کرتے ہیں۔ بچوں کو سکول بھیجنے کاتصوربھی نہیں کرسکتیں۔
کھانے کونہیں ملتاتوباقی باتیں کیسے سوچیں،صبح چاربجے اٹھ کرکام شروع کرناپڑتاہے، بیماری میں بھی آرام نصیب نہیں ہوتا،ہماراپوراخاندان کام کرتاہے مگرزندگی میں کوئی سہولت نہیں۔ اپنا گھر اپنی چھت تودور کی بات اپنی لیٹرین تک محفوظ نہیں ۔ جراثیم آلود ماحول پینے کا پانی آلودہ ماحول میں متی جراثیم انہیں انسانی حقوق تحفظ و عزت نفس سے محروم کرتاہے جبہ ان کی محرومیوں کی سب سے بڑی وجہ آزاد وطن میں غلام ہونا ان کے پاس ان کی شناخت نہیں پاکستانی شناختی کارڈ سے پاکستان کے 60 سے 70 فیصد بھٹہ مزدور محروم ہیں ۔
اک دکھیاری بھٹہ مزدور ماں کا کہنا اپنا دکھ کسے بتائیں دل کے زخم کسے دکھائیں ہم جائیں تو جکہاں جائین ۔ ہمارے پاس شناختی کارڈ نہیں اپنی محرومیوں کا زمہ دار کسے ٹھہرائیں ۔
بھٹہ مزدور نوجوان کا کہناہے کہ ووٹ کیاہوتا ہے معلوم نہیں میرے پاس شناختی کارڈ نہپیں ۔۔ مجھ سے کسی امیدوار نے ووت نہیں مانگا ۔۔ میں کسی سے اپنا حق کیسے مانگوں ۔۔ کوئی مجھے شناختی کارڈ دلا دے ۔۔
سماجی ادارہ سپارک کے نمائیندہ ملتان خرم شہزاد کہتے ہیں ان کا ادارہ بھٹہ مزدور بچوں کے مسائل اجاگر اور حل کرنے کے لئے کام کرتاہے کم عمری کی شادیاں بڑامسلہ ہے یہ کمیونیٹی شناختی کارڈ سے محروم ہے جنہیں بے نظیر انکم اسپورٹ پروگرام علاج معالجہ معاشی ترقی کے منصوبوں میں بھی کوئی معاونت ہیں مل سکتی لیکن حکومت پاکستان ان کے مسائل کے حل کے لئے پُر عزم ہے آج الیکشن کے روز ان کی محرومی کا احساس زیادہ ہے امید کرتے ہیں کہ اگلے الیکشن تک 100فیصد بھٹہ مزدور شناختی کارڈ بنوانے میں کامیاب ہوجائیں گے اور پروین جیسی لڑکیاں ووٹ کاست کر سکیں گی۔
سماجی ادارہ جستس اینڈ پیس کمیشن کے نمائیندہ ہائی سینٹ پیٹر کہتے ہیں جب تک جبری مشقت کے قانون پرعملدرآمدنہیں ہوتاکوئی ان مظلوم عورتوںکوبھٹہ مالکان کے چنگل سے آزادنہیں کرواسکتا، حکومت کم سے کم اجرت کے قانون پرعملدرآمدکروائے ، انکے بچوںکومفت تعلیم دی جائے گھربنواکر دیئے جائیں، اس وقت پنجاب میں 40فیصد بھٹہ نمزدوروں کو ایک طویل جدوجہد کے بعد شناختی کارڈ نصیب ہوئے جبکہ اندرون سندھ میں شکارپور خیر پور وغیرہ ، بلوچستان ، خیبرپختونخواہ کے 60 سے 70 فیصد بھٹہ مزدور شناختی کارڈ سے محروم میں پیشگیوں کا نطام انہیں آزاد ملک میں غلام بنارہاہے امید کرتے ہیں آنے والی نئی حکومت اپنے ان پاکستانی شہریوں کو پاکستانی شہریت ووٹ کا حق دلائے گی ۔
سماجی ادارہ پتن ترقیاتی تنظیم کی نمائیندہ رابعہ غنی کہتی ہیں کہ ان کی تنظیم نے اسلام آباد کے اطراف میں موجود بھٹوں پر کام کرنے والے مزدوروں کو شناختی کارد دلانے کے لئے نادرہ ۔
بھٹہ مالکان کے ساتھ مل کر نہ صرف کام کیابلکہ سی ڈی اے و کو بھی باقاعدہ شامل کرتے ہوئے ڈسٹرکت کی سطح پر ویجیلنس کمیٹی برائے تدارک جبرہ مشقت بھی بنائی ۔ ان کا کہناہے بھتہ مزدوروں کو شناخت سمیت انسانی حقوق دلانے کے لئے طویل جدوجہدجارہی ہے حکومت سنجیدگی سے ان کے مساائل حل کرے کم عمری کی شادیوں سمیت صحت وصفائی تحفظ بھتہ مزدور لڑکیو ںکے بڑے مسائل ہیں
اعداوشمار کے مطابق اسلام آباد میں 50فیصد بھٹہ مزدوروں کے پاس شناختی کارڈ موجود ہیں۔ تاہم پروین جیسی کم سن دلہنیں اپناگھراپنی جنت سمیت اپنے بچپن کی خوشیوں کھلونوں تعلیم کھیل کے حق کے خواب دیکھتی ہیں لیکن ان کا سوال یہی ہے کہ ان کے خواب کون پورے کرے گا