دنیا کو پاکستان کے ماحولیاتی نقصانات کا ازالہ کرنا چاہئے، عhttps://bunjaarun.com/2023/10/06/%d8%af%d9%86%db%8c%d8%a7-%da%a9%d9%88-%d9%be%d8%a7%da%a9%d8%b3%d8%aa%d8%a7%d9%86-%da%a9%db%92-%d9%85%d8%a7%d8%ad%d9%88%d9%84%db%8c%d8%a7%d8%aa%db%8c-%d9%86%d9%82%d8%b5%d8%a7%d9%86%d8%a7%d8%aa-%da%a9/المی بینک کے مشیر علی توقیر شیخ
پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی کے زیراہتمام پاکستان کو ماحولیاتی نقصانات کی تلافی کیلئے عالمی مدد کے موضوع پر سیمینار سے خطاب
اسلام آباد۔(عمرانہ کومل):
عالمی بینک کے مشیر علی توقیر شیخ نے کہا ہےکہ پاکستان کو عالمی ماحولیاتی نقصانات کی تلافی کے فنڈ کے لیے سنجیدہ اصلاحات کی ضرورت ہے ۔
انہوں نے ان خیالات کا اظہار پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی کے زیراہتمام پاکستان کو ماحولیاتی نقصانات کی تلافی کیلئے عالمی مدد کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ یہ سیمینار آکسفیم پاکستان کے تعاون سے منعقد ہونے والی سیریز میں چوتھا سیمینار ہے۔
علی توقیر شیخ نے پالیسی دستاویزات میں لاس اینڈ ڈیمج کی واضح تعریف کرنے اور این ڈی سی کے تحت وعدوں کی تکمیل کے لئے متعلقہ اداروں اور بیوروکریسی کے درمیان تکنیکی سمجھ بوجھ پیدا کرنے پر زور دیا۔انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کو ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں اور اس وجہ سے درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے عالمی مدد کی ضرورت ہے تا کہ اس کی استعداد میں اضافہ ہو سکے۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ایس ڈی پی آئی کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر شفقت منیر نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ پاکستان مختلف قسم کی موسمی آفات، بالواسطہ اور بالواسطہ خطرات سے دوچار ہے جس کی وجہ سے میکرو اکنامک عدم توازن مزید بڑھ چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2022 کے سیلاب سے ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوب گیا، تقریباً 80 لاکھ افراد بے گھر ہوئے، اور 33 ملین افراد کو متاثر کیا، سندھ سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے جس کا تقریباً 70 فیصد نقصان ہوا اور بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو گیا ہے۔ ان اہم نقصانات سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں آفات سے پیدا ہونے والے خطرات کی تخفیف کی کمزور صلاحیت پائی جاتی ہے اور موسمیاتی خطرات سے نمٹنے میں عدم فعالیت ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ آب و ہوا میں تبدیلی سے پیدا ہونے والے نقصانات کی تلافی کے لیے لاس اینڈ ڈیمج فنڈ کے قیام کی بحث 1990 کی دہائی سے جاری ہے۔
پاکستان نے ملک میں تباہ کن سیلاب 2022 کے بعد 2022 میں COP27 میں لاس اینڈ ڈیمج فنڈ کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ پاکستان کا فنانسنگ کیس موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کے ٹھوس سائنسی شواہد کی عدم دستیابی کی وجہ سے کمزور پڑ گیا ہے اور عالمی سطح پر فنڈ کو فعال کرنا ابھی باقی ہے۔ انہوں نے موسمیاتی فنانسنگ کی تجاویز کو ایس ڈی جیز کے ساتھ ہم آہنگ کرنے، موسمیاتی کارروائی کے لیے پورے معاشرے کے نقطہ نظر کو اپنانے اور وسط مدتی بجٹ کے فریم ورک کے ساتھ فنانس کے ساتھ مربوط ہونے پر زور دیا۔
موسمیاتی مالیات کی ماہر کشمالہ کاکاخیل نے کہا کہ پاکستان نے بین الاقوامی فورمز پر ایک مضبوط کیس پیش کیا اور عبوری وزیر خارجہ نے بھی لاس اینڈ ڈیمج کے فنڈ پر ملک کے موقف کی استدعا کی۔ تاہم ملک کو فنڈ کے طریقہ کار کو عملی جامہ پہنانے کے لیے منعقدہ عبوری کمیٹی کے اجلاسوں میں زیر بحث پانچ اہم سوالات کے ارد گرد اپنے لاس اینڈ ڈیمج کے کیس کو فعال طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ایس ڈی پی آئی کی ایسوسی ایٹ ریسرچ فیلو زینب نعیم نے کہا کہ جب کہ ترقی پذیر ممالک نے لاس اینڈ ڈیمج فنڈ کے معاملے میں پاکستان کی بھرپور وکالت کی ہے تاہم کافی جارحانہ جوابی دلائل موجود ہیں جو فنڈ کو فوسل فیول پر مبنی منصوبوں اور معیشتوں کے ساتھ مشروط کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ ترقی پذیر ممالک پہلے ہی قرضوں اور سیاسی مسائل کا بوجھ برداشت کر رہے ہیں، موسمیاتی تبدیلیوں نے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو اعداد و شمار اور شواہد کے علاوہ زمینی حقائق کے مطابق اپنا کیس دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہئے۔