پیش رفت کو ذاتی طور پر دیکھنے کے لئےکےسکھر، خیرپور اور رانی پور کا دورہ
چیئرپرسن نے فاطمہ کیس میں تفصیلات اور حالیہ پیشرفت حاصل کرنے کے لئے ڈی آئی جی سکھر عبدالحمید کھوسو اور ایس ایس پی خیرپور سمیع اللہ سومرو اور ڈی سی خیرپور احمد فواد شاہ کے دفتر کا بھی دورہ کیا
اسلام آبار- عمرانہ کومل
محترمہ نیلوفر بختیار، چیئرپرسن قومی کمیشن برائے وقار نسواں (این سی ایس ڈبلیو) کا نو سالہ گھریلو ملازمہ فاطمہ کے لرزہ خیز قتل کیس میں ہونے والی پیش رفت کو ذاتی طور پر دیکھنے کے لئےکےسکھر، خیرپور اور رانی پور کا دورہ
محترمہ نیلوفر بختیارچیئرپرسن این سی ایس ڈبلیو نےرانی پور میں ایک بااثر پیر کے گھر میں وحشیانہ تشدد اور زیادتی کے بعد جان کی بازی ہارنے والی کمسن بچی فاطمہ کے سوگوار خاندان سے اظہار یکجہتی ، حمایت اور کیس میں ہونے والی پیش رفت کو ذاتی طور پر دیکھنے کے لئے سکھر، خیرپور اور رانی پور کا دورہ کیا۔ ممبر سندھ کمیشن برائے وقار نسواں عائشہ دھاریجو اس دورے کے دوران چیئرپرسن کے ہمراہ رہیں۔
چیئرپرسن نے انسداد دہشت گردی عدالت سکھر کا دورہ کیا جہاں فاطمہ قتل کیس کی سماعت مقرر کی گئی تھی۔ معزز جج ندیم بدر قاضی کی عدالت میں انہیں بولنے کی خصوصی اجازت دی گئی۔ انہوں نے نو سالہ فاطمہ کے لئے تیز انصاف کے لئے معزز عدالت سے اپیل کی. انہوں نے قانونی ٹیم کے ساتھ میڈیکو لیگل اور ویژوئل ثبوتوں کا جائزہ لینے کے لئے اس مسئلے پر مزید تبادلہ خیال کیا اور غیرت کے نام پر قتل اور جبری مذہب کی تبدیلیوں جیسے دیگر اہم مسائل کو بھی اجاگر کیا۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہر عورت اور بچے کی زندگی اور وقار اہم ہے اور ہمیں اپنے کمزور طبقہ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے معاشرے میں احترام، مساوات اور صنف اور طبقے سے بالاتر ہر ایک کے حقوق کی حفاظت اور ان کی اصلاح کرنا ہوگی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جب تک ہم طبقاتی تفریق ختم نہیں کریں گے، ہمارا نظام انصاف کبھی نہیں پنپ سکتا۔ بعد ازاں وکلاء کی جانب سے انہیں سندھ میں فاطمہ کیس اور اس طرح کے دیگر مقدمات کے بارے میں بھی بریفنگ دی گئی۔
چیئرپرسن نے فاطمہ کیس میں تفصیلات اور حالیہ پیشرفت حاصل کرنے کے لئے ڈی آئی جی سکھر عبدالحمید کھوسو اور ایس ایس پی خیرپور سمیع اللہ سومرو اور ڈی سی خیرپور احمد فواد شاہ کے دفتر کا بھی دورہ کیا۔انھیں پیر اسد شاہ کی اہلیہ حنا شاہ کے گرفتاری پیش کرنے کے بارے میں آگاہ کیا گیا جو اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچا نے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ انہوں نے پولیس کی ہمت اور پیشہ ورانہ مہارت کی تعریف کی جو شدید دباؤ اور دیگر متعدد چیلنجوں کے پیش نظر بھی پوری تندہی سے کام کر رہی ہے۔ انہوں نے خواتین کے لئے سکھر پولیس شکایت سیل کا بھی دورہ کیا اور خواتین شکایت کنندگان اور متاثرین کو درپیش مسائل کے بارے میں استفسار کیا۔
اس کے بعد، چیئرپرسن نے تعزیت کے لئے فاطمہ فورورو کے گھر گئیں۔ انہوں نے فاطمہ کے لئے انصاف کے حصول کے لئے کمیشن کی غیر متزلزل حمایت کے بارے میں یقین دہانی کرائی۔ علاوہ ازیں انھوں نے مقامی لڑکیوں کے اسکول کا بھی دورہ کیا جو انتہائی دگرگوں حالت میں تھا۔ یہاں تک کہ اس کی روشنیاں، پنکھے اور کھڑکیاں چوری ہو گئیں تھیں۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ سندھ کے محکمہ تعلیم کے ساتھ معاملہ کو آٹھائیں گی اور ان سے درخواست کریں گی کہ اسکا نام فاطمہ کے نام پر رکھا جائے کہ وہ اسے علاقے کی غریب خواتین اور لڑکیوں کی حمایت کی علامت بنائیں۔
دورے کے دوران سکھر پریس کلب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرپرسن نے کہا کہ چائلڈ لیبر اور زیادتی کے واقعات میں تشویشناک اضافے سے ہمارے معاشرے کی اخلاقی اساس کے زوال پذیر ہونے کا پتہ چلتا ہے اور کمزور نظام انصاف کی عکاسی ہوتی ہے جہاں مجرم با آسانی بری ہو جاتا ھے اور متاثرین اور ان کے اہل خانہ بہت بڑا معاشرتی دباؤ برداشت کرتے ہیں جو نظام پر ان کے اعتماد کو ختم کردیتا ہے۔
چیئرپرسن نے اغواشدہ نازیہ کھوسو اور ان کی دو سالہ بیٹی کی بازیابی کے معاملے کو تیز کرنے کے لئے کشمور کا بھی دورہ کیا۔ جب اغوا کیا گیا تھا تو محترمہ نازیہ آٹھ ماہ کی حاملہ تھیں۔ چیئرپرسن نے علاقے کی سول سوسائٹی آرگنائزیشن کے ممبر کے ہمراہ کے ایس ایس پی کشمور جناب روحیل خان کھوسو سے تفصیلی ملاقات کی۔ انہیں علاقے میں خواتین پولیس افسران اور عملے کی کمی کے بارے میں بریفنگ دی گئ کیونکہ عوام اپنی لڑکیوں کو اسکول بھیجنے پر مائل نہیں ہیں۔ چیئرپرسن نے کاشمور میں صنفی مسائل کے خلاف آگاہی اور حساسیت کی مہم چلانے کا عزم کیا۔ انہوں نے علاقے میں لیڈی پولیس کی بھرتی اور خواتین سے متعلقہ معاملات کو موثر انداز میں نمٹانے کے لئے ان کی مناسب تربیت پر زور دیا۔
انہوں نے مزید وعدہ کیا کہ وہ ان مسائل کو یہاں اجاگر کریں گی اور ہر ممکن انداز میں ان کا ساتھ دیں گی۔
چیر پرسن نے اعادہ کیاکہ
پاکستان کو ایسا ملک بنانا ہے جہاں خواتین اور بچے محفوظ ہوں اور ان کے آئینی حقوق مل رہے ہو انہوں نے میڈیا، سول سوسائٹی، متعلقہ صوبائی اسٹیک ہولڈرز اور فاطمہ جیسے متاثرین کو انصاف دلانے کے لئے کسی بھی صلاحیت رکھنے والے ہر شخص پر زور دیا کہ اپنی سطح پر ہر ممکن کام کریں۔