قاضی مبارک نے اپنی شاعری میں بلوچستان کی ثقافت ، تہزیب و تمدن اور یہاں کی محرومیوں کو شاعری کے زبان میں بیان کیا
ایک عہد کا خاتمہ معلوماتی تحریر ظریف بلوچ
پسنی کے تنگ اور تاریک گلیوں میں خاموشی کا سماں اور ہر آنکھ اشکبار تھی۔لوگ ہجوم در ہجوم ایک ملنگ نما درویش صفت انسان کی نمازہ جنازہ میں شرکت کرنے کے لیئے آرہے تھے۔ جس نے اپنی زندگی بلوچی ادب اور زبان کے لئے وقف کر رکھا تھا۔ ایک ملنگ اور درویش صفت انسان کے آخری دیدار میں مکران بھر سے لوگ جمع تھے۔
مبارک قاضی جو اپنی شاعری کی وجہ سے بلوچ دنیا میں ایک اعلی مقام رکھتے تھے اور کئی دہائیوں تک بلوچی شاعری میں قاضی کا راج رہا ہے اور یہ راج قاضی کے جسمانی جدائی کے بعد بھی جاری رہے گا۔
پسنی کے زرخیز سرزمین میں جنم لینے والا مبارک قاضی شاعری کے ہر فن سے واقف تھے اور انکے لکھے گئے گیت بلوچی زبان کے صف اول کے گلوکار گاتے رہے ہیں۔ انکی شاعری میں جمالیات، بلوچ ثقافت اور مزاحمت کی جھلک نظر آتا ہے۔
قاضی عام زندگی میں ایک ملنگ نما درویش کی طرح تھا اور کبھی بھی یہ ظاہر ہونے نہیں دیتا ہے کہ بلوچی ادب کے عصر حاضر کا سب سے بڑا نام ہے۔ وہ سب کا دوست اور شاعری کے دنیا میں ایک بے تاج بادشاہ رہا ہے، قاضی جسمانی طور پر اپنے چاہنے والوں سے ضرور جدا ہوا مگر قاضی کے لکھے گئے گیت قاضی کو تاقیامت زندہ رکھیں گے ۔
قاضی کے شاعری کی پہلی کتاب “زر نوشت”نوے کے دہائی میں شائع ہوا اور اس دنیا سے چلے جانے سے پہلے مبارک قاضی کے دس شعری مجموعہ شائع ہوچکے ہیں اور قاضی کے ڈائریوں میں اتنا مواد ضرور ہوگا جس سے دو مذید شعری مجموعوں کی اشاعت ممکن ہوسکے۔
مبارک قاضی کو بلوچی زبان کے علاؤہ انگریزی اور اردو میں کافی عبور حاصل تھا اور کبھی کبھار اردو شاعری۔ بھی کرتے تھے، مگر اپنی زبان سے محبت کی وجہ سے قاضی نے بلوچی شاعری کو ترجیح دیا۔
کہدہ امان اللہ کے گھر 1956 میں جنم لینے والا مبارک اپنے عہد کا ایک ایسا شاعر رہا ہے ، جس کے چاہنے والے دنیا کے کونے کونے میں ملیں گے۔مبارک سے قاضی مبارک کا یہ سفر اتنا آسان نہیں تھا، بلکہ اس میں ان تھک محنت شامل رہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ قاضی نے ستر کے دہائی میں شاعری کا آغاز کیا ہے اور اکیسویں صدی قاضی کے عروج کا زمانہ رہا ہے اور نصف صدی تک بلوچی ادب پر راج کرنے والا قاضی دیکھنے میں تو ایک ملنگ اور درویش لگتا تھا مگر اندر کے قاضی کو سمجھنا ایک عام آدمی کے لئے ممکن نہیں تھا۔
قاضی سادہ اور فہم زبان میں شاعری کرتا تھا، جس کو عام بلوچ آسانی کے ساتھ سمجھ سکتے تھے۔اس حوالے سے قاضی کہتے تھے”میں جن لوگوں کے لئے شاعری کرتا ہوں انکو سمجھتے میں آسانی ہو”
اچ منا بازی نہ برتگ تو گوں زندئے گوازی آں
تو اگاں واجا ھدا ءِ من مبارک کازی آں
۔
جیت پائے تم نہ مجھ سے زندگی کی بازی
گر خدا ہو تم تو ہوں میں بھی مبارک قاضی
(مبارک قاضی)
قاضی مبارک نے اپنی شاعری میں بلوچستان کی ثقافت ، تہزیب و تمدن اور یہاں کی محرومیوں کو شاعری کے زبان میں بیان کی اور بلوچی ادب پڑھنے والے نوجوان طالب علموں کے لئے تحقیق کے لئے آسانی پیدا کی ہے اور بلوچی ادب پڑھنے والے طالب علم قاضی مبارک کے لکھے گیتوں پر تحقیق کرکے دنیا کے سامنے لا سکتے ہیں
16 ستمبر 2023 کو قاضی مبارک اچانک اپنے مداحوں سے جسمانی طور پر بچھڑ گئے، پنوں کے سرزمین کیچ میں زندگی کے آخر رات گزارنے والا قاضی اس دنیا سے رخصت ہوگئے جبکہ قاضی کی شاعری تاقیامت اس دنیا میں رہے گا۔
قاضی سیاست دانوں کے بارے میں کہتے ہیں۔
اے شہر ءَ کور سروک انت اء کور راہ دربر
گلگ کنے نہ کنے شر چراگ تنہا انت
قاضی کے اچانک رحلت سے پسنی سمیت بلوچستان اور دنیا کے کونے کونے میں مقیم بلوچ اداسی اور غم کی کیفیت سے دوچارہو گئے۔
قاضی اپنے بارے میں بھی لکھتا تھا
چشیں قاضی یے کہ مبارک انت پدا مشکل انت ودی بہ بیت