NewsUncategorizedانسانیاتخبرنامہ

قومی کمیشن برائے انسانی حقوق این سی ایچ آر کی خواجہ سراؤں کے حقوق پر مشاورت

این سی ایچ آر پورے پاکستان میں خواجہ سراؤں کے بنیادی حقوق کا پرزور حامی ہے

 

اسلام آباد(عمرانہ کومل)

 قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر( نے خواجہ سراؤں کےتحفظ کے حقوق

ایکٹ 2018 کے خلاف وفاقی شریعت عدالت (ایف ایس سی (کے فیصلے اور اس کے نتیجے میں نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی( نادرا )میں X این آئی سی کارڈ کی رجسٹریشن کو روکنے کے بارے میں مشاورت کی۔

 

واضح رہے وفاقی شرعی عدالت ( ایف ایس سی( کے ٹرانس جینڈر کے تحفظ کے حقوق کے بل 2018 کی شقوں کے خلاف فیصلے کے بعد نادرا نے خواجہ سراؤں کی رجسٹریشن روک دی ہے۔ اس فیصلے پر قانونی برادری، سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے آواز اٹھائی جارہی ہے۔

 

این سی ایچ آر کی مشاورت میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے سرکردہ ارکان، نادرا میں شمولیتی ونگ کے نمائندے، قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کی وزارت کے نمائندے شامل تھے۔ اس مشاورت کی قیادت چیئرپرسن این سی ایچ آر، رابعہ جویری آغا نے کی۔

 

این سی ایچ آر پورے پاکستان میں خواجہ سراؤں کے بنیادی حقوق کا پرزور حامی ہے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لئے این سی ایچ آر نے اسٹریٹجک وژن اپنایا ہے۔ مزید برآں این سی ایچ آر اپنے عدالتی مینڈیٹ کے مطابق ٹرانس جینڈر افراد کے خلاف شکایات اور تشدد کی تحقیقات کرتا ہے۔ چیئرپرسن این سی ایچ آر، رابعہ جویری آغا نے کہا کہ “سی این آئی سی کے بغیر خواجہ سرا اپنے بنیادی اور آئینی حقوق سے محروم ہیں۔”

 

ایک ممتاز ٹرانس جینڈر کارکن مانی نے اس حوالے سے کہا کہ نادرا کو ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے ساتھ ایک موثر رابطہ قائم کرنے میں کافی وقت لگا ۔ “X” رجسٹریشن کے عمل کو روکنے سے ٹرانس جینڈر کمیونٹی میں خوف اور صدمہ پایا جاتا ہے اور نادرا کے ساتھ ان کے تعلقات بھی اس فیصلے سے متاثر ہوئے ہیں”۔ ایک اور ٹرانس جینڈر کارکن زرین نے بتایا کہ انھوں نے اپنے “X” کارڈ کی تجدید کے لیے نادرا سینٹر کا وزٹ کیا لیکن نادرا سسٹم کے صنفی زمرے میں “X” سیکشن کی عدم موجودگی کی وجہ سے انھیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔

 

فرحت اللہ بابر، سابق سینیٹر، جو ایف ایس سی کے فیصلے کے خلاف اپیلوں میں سے ایک فریق ہیں، نے کہا کہ خواجہ سراؤں کے لیے رجسٹریشن کے عمل کو روکنے کے فیصلے نے “انہیں نہ صرف بے بس کر دیا ہے، بلکہ بے وطن کر دیا ہے”۔ انہوں نے مزید کہا کہ “ایف ایس سی کے فیصلے کے خلاف اپیلوں کی سماعت فوری طور پر ہونی چاہیے اور روکی ہوئی این آئی سی رجسٹریشن کو جاری رکھا جانا چاہیے۔”

 

قانونی ماہر ریما عمر کا کہنا تھا کہ ایف ایس سی کا فیصلہ ابھی بھی اپیل کی مدت میں ہے، اس لیے مکمل طور پر نافذ نہیں ہوا، جس کا مطلب ہے کہ نادرا خواجہ سراؤں کی رجسٹریشن جاری رکھ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ سراؤں کو بنیادی حقوقکی فراہمی آئینی طور پر لازم ہے، اور انہوں نے امید ظاہر کی کہ نادرا خواجہ سراؤں کے لیے ان کی رجسٹریشن کا عمل دوبارہ شروع کرے گا۔

 

نادرا میں انکلوزیو رجسٹریشن کی ڈائریکٹر ریما آفتاب نے کہا کہ جب انہوں نے خواجہ سراؤں کی رجسٹریشن واپس لینے کا فیصلہ کیا تو وہ اپنے قانونی شعبے کی ہدایات پر عمل کر رہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس صورتحال سے خوش نہیں ہیں، اور وہ تسلیم کرتی ہیں کہ “اگر نادرا نے شناختی کارڈ جاری نہیں کیے تو لوگوں کو کسی حقوق تک رسائی حاصل نہیں ہوگی۔” مزید برآں، نادرا کے ایک قانونی نمائندے نے دعویٰ کیا کہ انہیں ایف ایس سی کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی اپیلوں کی کوئی کاپی موصولہی نہیں ہوئی۔

 

انسانی حقوق کے کارکن اور خواجہ سرا کمیونٹی کے سرکردہ رکن نایاب علی نے کہا کہ نادرا کے اقدامات آئین کے منافی ہیں۔ انہوں نے اس معاملے کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ انتخابات سے قبل خواجہ سراؤں کی رجسٹریشن کو جاری رکھا جانا چاہیے۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button