Newsانسانیاتخبرنامہ

قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی انکوائری ٹیم کا جڑانوالہ کا دورہ

کمیشن کو بتایا گیا کہ 128 افراد کے خلاف اے ٹی اے اور سیکشن 324 اور 353 پی پی سی کے تحت پانچ ایف آئی آر درج کی گئی ہیں

 

قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی انکوائری ٹیم  جڑانوالہ کا دور

 

اسلام آباد(عمرانہ کومل ) قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر ) کی جمعرات کو کی گئی انکوائری کے مطابق جڑانوالہ کے بدقسمت واقعے میں کل 17 گرجا گھروں کو نذر آتش کیا گیا، جن میں 12 رجسٹرڈ اور 5 چھوٹےغیر رجسٹرڈ چرچ شامل ہیں۔ اس ہنگامہ آرائی کے دوران تقریباً 80 گھروں میں توڑ پھوڑ کی گئی اور 30 سے 40 مکانات مکمل طور پر جل گئے ۔

 

چیئرپرسن این سی ایچ آر رابعہ جویری آغا کی سربراہی میں این سی ایچ آر کی ٹیم نے جمعرات کو جڑانوالہ کا دورہ کیا تاکہ مسیحی برادر ی کے گرجا گھروں کی بے حرمتی اور گھروں میں کی جانے والی توڑ پھوڑ کے بارے میں دریافت کیا جا سکے۔ وفد نے کمشنر فیصل آباد محترمہ سلوت سعید، آر پی او اور ضلعی انتظامیہ کے افسران سے ملاقاتیں کیں۔ ٹیم نے متاثرہ کمیونٹی کے خاندانوں سے بھی ملاقات کی اور ساتھ ہی ایک دن پہلے کی گئی تباہی کا جائزہ لیا ۔

 

کمشنر سلوت سعید نے بتایا کہ نقصانات کے تخمینہ اور انکوائری کے لیے دو کمیٹیاں پہلے ہی مطلع کر دیا گیا ہے ۔ کمیشن کو بتایا گیا کہ پنجاب حکومت نے تمام تباہ شدہ گھروں اور گرجا گھروں کی فوری مرمت کا وعدہ کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے سیکرٹری ورکس اینڈ سروسز پنجاب جڑانوالہ میں موجود تھے۔

 

کمیشن کو بتایا گیا کہ 128 افراد کے خلاف اے ٹی اے اور سیکشن 324 اور 353 پی پی سی کے تحت پانچ ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ ملزمان گرفتار ہیں جنہیں کل ریمانڈ کے لیے پیش کیا جائے گا۔ امن وامان قائم کرنے کیلئے دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے اور صورتحال پر نظر رکھنے کے لیے علاقے میں 3500 پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔

 

این سی ایچ آر کی ٹیم کو بتایا گیا کہ واقعے کی رات شہر میں 180 رینجرز اہلکار تعینات تھے۔کچھ لوگوں کے مطابق جن کا این سی ایچ آرنے انٹرویو کیایہ مسئلہ دو فریقوں کے درمیان مالی تنازعہ کے بعد شروع ہوا۔تاہم اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

 

ٹیم کو بتایا گیا کہ جب عیسائی اور مسلم کمیونٹی درمیانی بات چیت جاری تھی تو ہجوم پیچھے سے آیا اور ہنگامہ آرائی شروع کر دی لیکن انتظامیہ اور چرچ کی فوری کارروائی کی وجہ سےلوگوں کو تیزی سے اطلاع دی گئی اور کسی بھی جانی نقصان سے پہلے ہی متاثرہ افراد کو وہاں سے نکال لیا گیا ۔

 

این سی ایچ آر کے چیئرپرسن رابعہ جویری نے کہا کہ ”فیصل آباد مذہبی تشدد کے حوالے سے حساس مقام ہے ۔ اس علاقے میں پہلےبھی توہین مذہب اور گرجا گھروں کی بے حرمتی کے بہت سے واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔ اس طرح کے واقعات کے سدباب کیلئے حکومت کو بین المذاہب ہم آہنگی اور رواداری کو فروغ دینے کی کوشش کرنی چاہیے“۔

 

واضح رہے ہنگامہ آرائی کرنے والا ہجوم تقریباً 1200 افراد پر مشتمل تھا جن میں زیادہ تر نوجوان تھے۔ مذہبی جذبات کو بھڑکانے کے لیے مساجد کے لاؤڈ اسپیکر پر اعلانات کئے گئے ۔

 

چیئرپرسن این سی ایچ آر نے خاتون کمشنر سلوت سعید، آر پی او اور رینجرز اور پولیس کے سربراہ کی صورتحال کو کم کرنے اور کسی بھی ناگہانی حادثے کو روکنے میں ان کے کردار کو سراہا اور اس واقعے کے بارے میں مزید کہا کہ ”علاقے میں حالات بدستور کشیدہ ہیں۔ دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہےجس کے بعد مساجد میں جمعے کے اجتماعات اور مسیحی برادری کے اتوار کی عبادات ہوں گی ۔ کمیشن مجرموں کو پکڑنے اور قانون پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کیلئے پولیس سے فوری کارروائی کی درخواست کرتا ہےاور متاثرہ کمیونٹی کو ہر طرح کی صورتحال سے آگاہ رکھنا بھی بیحد ضروری ہے ۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button