گھر یلو تشدد کے خلاف قوانین پر عملدرآمد کروانا وقت کی اہم ضرورت ہے
قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے گھریلو تشدد کے بل پر پالیسی بریف پیش کردی
اسلام آباد(عمرانہ کومل)
گھریلو تشدد کے خلاف وسیع مہم میں اپنا بھر پور کردار ادا کر نے کیلئے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) نے یواین ویمن کے ساتھ مل کر بروز منگل سے ”گھریلو تشدد پر پالیسی بریف“ لانچ کی ۔
پالیسی بریف اس بات کا تفصیلی احاطہ پیش کرتی ہے کہ گھریلو تشدد پاکستانی شہریوں بالخصوص خواتین کو کس طرح متاثر کرتا ہے۔ مزید برآں اس بریف میں گھریلو تشدد کے خلاف حکومت کی طرف سے عالمی سطح پر کی گئی یقین دہانیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے اس مسئلے کے فوری حل کے لیے متعلقہ قانون سازی کرنے کو ایک اہم قدم قرار دیا گیا ہے ۔
اس موقع پر این سی ایچ آر کی چیئرپرسن رابعہ جویری آغا نے کہا کہ ہم نے ملک گیر مشاورت ، سول سوسائٹی اور ریاستی اداروں کے مختلف اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد ملک میں گھریلو تشدد کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافے اور خواتین کو تحفظ نہ ملنے کا نوٹس لیا ہے ۔ پاکستان ایک غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے کورونا کے بعد تباہ کُن سیلاب اور بڑھتی ہوئی مہنگائی مردوں کے مقابلے میں خواتین کو کہیں زیادہ متاثر کر رہی ہے ۔
انھوں نے مزید کہا کہ پالیسی بریف پر کام کرنے کے علاوہ کمیشن نے پنجاب میں خواتین کی شادی کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہیلپ لائن (1413) کا آغاز کیا ہے جبکہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے پاس شکایت کے ازالے کا منظم نظام بھی موجود ہے جس کے تحت سندھ اور بلوچستان میں صوبائی گھریلو تشدد کے ایکٹ کے نفاذ پر مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں ۔
پالیسی بریف ریسرچ ٹیم کے ذریعے جمع کی گئی معلومات سے یہ حقائق سامنے آئے کہ 90 فیصد سے زیادہ پاکستانی خواتین کو اپنی زندگی میں گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے (COVID-19 لاک ڈاؤن کے دوران گھریلو تشدد پر HRCP فیکٹ شیٹ) اور لاک ڈاؤن کے دوران خواتین کے خلاف تشدد کے 10,000 سے 11,000 واقعات رپورٹ ہوئے (عورت فاؤنڈیشن، ایس ایس ڈی او اور نادرا)۔
قانونی فریم ورک کے حوالے سے بریف میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ اس وقت صو بوں میں پنجاب پروٹیکشن آف ویمن اگینسٹ وائلنس ایکٹ 2016، ڈومیسٹک وائلنس پریونشن اینڈ پروٹیکشن ایکٹ سندھ 2013 اور ڈومیسٹک وائلنس پریونشن اینڈ پروٹیکشن ایکٹ بلوچستان 2014 سمیت تین قوانین موجود ہیں جبکہ وفاقی سطح پر ایکٹ 2020 زیر التوا ہے۔
بریف میں وفاقی سطح پر گھریلو تشدد کے خلاف قانون سازی، گھریلو تشدد کے متاثرین کی مدد اور انھیں مختلف خدمات کی فراہمی، اس مسئلے کے بارے میں آگاہی و تعلیم دینے ، اسٹیک ہولڈرز خصوصاً عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اس مسئلے کے بارے میں حساسیت بڑھانے اور صلاحیتو ں میں اضافہ کر نے کے حوالے سفارش کی گئی ہے۔
اپنے ابتدائی کلمات میں وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے کہا کہ تحقیق کے مطابق پاکستان میں 90 فیصد خواتین کو کسی نہ کسی طرح کے گھریلو تشدد کا سامنا ہے لیکن ان میں سے 50 فیصد اس کی اطلاع نہیں دیتیں۔ بدقسمتی سے یہ تمام اعداد و شمار بھی ہمارے سامنے بہت قلیل تعداد میں سامنے آئے ہیں معاملات کی نو عیت اس سے کہیں زیادہ سنجیدہ ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ گھریلو تشدد کیلئے قانون سازی اہم ہے لیکن اسکے سدباب کا زیادہ تر انحصار اس بات پر ہے کہ معاشرہ اپنے کمزوروں کو کس طرح دیکھتا ہے۔ انھو ں نے اس حوالے سے چلائی گئی مہم #GharKiBaatNahi کی تعریف کی اور کہا کہ یہ ایک مناسب ہیش ٹیگ ہے جو دنیا کے ہر سماجی طبقے اور ہر ملک پر لاگو ہوتا ہے اور تشدد کے حوالے سے ہمارے رویئے کو تبدیل کر نے کا سبب بھی ہے ۔
اپنے کلیدی خطاب میں وفاقی وزیر برائے تخفیف ِغر بت اور سماجی تحفظ شازیہ مری نے کہا کہ گھریلو تشدد کبھی بھی اُن کے لیے ایک غیر سنجیدہ مو ضو ع نہیں رہا بلکہ یہ پاکستان کی بہت سی خواتین کا ایک حقیقی مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ گھریلو تشدد سے بچ جانے والی خاتون کے درد کا تصور کر سکتی ہیں کیونکہ وہ خود بھی ان میں سے ایک ہیں اور گھریلو تشدد گھر یا خاندان کا مسئلہ نہیں ہے، یہ معاشرے اور قوم کا مسئلہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہر کسی کو شریعت کورٹ کا فیصلہ پڑھنا چاہیئے جس میں کہا گیا ہے کہ اسلام میں گھریلو تشدد کی اجازت نہیں ہے۔ ہمیں اس کو زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی ضرورت ہے۔ یہ غلط تاثر کہ اسلام خواتین کے خلاف تشدد کی اجازت دیتا ہے ۔ ہمیں لوگوں کو اسلام کے حقیقی پیغام سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔
یو این ویمن کی ڈپٹی کنٹری کی نمائندہ جیکی کیٹونتی نے این سی ایچ آر کی کوششوں کو سراہا اور گھریلو تشدد کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔
قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے گھریلو تشدد کے بل پر پالیسی بریف پیش کردی
گھر یلو تشدد کے خلاف قوانین پر عملدرآمد کروانا وقت کی اہم ضرورت ہے
اسلام آباد(پریس ریلیز) گھریلو تشدد کے خلاف وسیع مہم میں اپنا بھر پور کردار ادا کر نے کیلئے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) نے یواین ویمن کے ساتھ مل کر بروز منگل سے ”گھریلو تشدد پر پالیسی بریف“ لانچ کی ۔
پالیسی بریف اس بات کا تفصیلی احاطہ پیش کرتی ہے کہ گھریلو تشدد پاکستانی شہریوں بالخصوص خواتین کو کس طرح متاثر کرتا ہے۔ مزید برآں اس بریف میں گھریلو تشدد کے خلاف حکومت کی طرف سے عالمی سطح پر کی گئی یقین دہانیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے اس مسئلے کے فوری حل کے لیے متعلقہ قانون سازی کرنے کو ایک اہم قدم قرار دیا گیا ہے ۔
اس موقع پر این سی ایچ آر کی چیئرپرسن رابعہ جویری آغا نے کہا کہ ہم نے ملک گیر مشاورت ، سول سوسائٹی اور ریاستی اداروں کے مختلف اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد ملک میں گھریلو تشدد کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافے اور خواتین کو تحفظ نہ ملنے کا نوٹس لیا ہے ۔ پاکستان ایک غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے کورونا کے بعد تباہ کُن سیلاب اور بڑھتی ہوئی مہنگائی مردوں کے مقابلے میں خواتین کو کہیں زیادہ متاثر کر رہی ہے ۔
انھوں نے مزید کہا کہ پالیسی بریف پر کام کرنے کے علاوہ کمیشن نے پنجاب میں خواتین کی شادی کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہیلپ لائن (1413) کا آغاز کیا ہے جبکہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے پاس شکایت کے ازالے کا منظم نظام بھی موجود ہے جس کے تحت سندھ اور بلوچستان میں صوبائی گھریلو تشدد کے ایکٹ کے نفاذ پر مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں ۔
پالیسی بریف ریسرچ ٹیم کے ذریعے جمع کی گئی معلومات سے یہ حقائق سامنے آئے کہ 90 فیصد سے زیادہ پاکستانی خواتین کو اپنی زندگی میں گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے (COVID-19 لاک ڈاؤن کے دوران گھریلو تشدد پر HRCP فیکٹ شیٹ) اور لاک ڈاؤن کے دوران خواتین کے خلاف تشدد کے 10,000 سے 11,000 واقعات رپورٹ ہوئے (عورت فاؤنڈیشن، ایس ایس ڈی او اور نادرا)۔
قانونی فریم ورک کے حوالے سے بریف میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ اس وقت صو بوں میں پنجاب پروٹیکشن آف ویمن اگینسٹ وائلنس ایکٹ 2016، ڈومیسٹک وائلنس پریونشن اینڈ پروٹیکشن ایکٹ سندھ 2013 اور ڈومیسٹک وائلنس پریونشن اینڈ پروٹیکشن ایکٹ بلوچستان 2014 سمیت تین قوانین موجود ہیں جبکہ وفاقی سطح پر ایکٹ 2020 زیر التوا ہے۔
بریف میں وفاقی سطح پر گھریلو تشدد کے خلاف قانون سازی، گھریلو تشدد کے متاثرین کی مدد اور انھیں مختلف خدمات کی فراہمی، اس مسئلے کے بارے میں آگاہی و تعلیم دینے ، اسٹیک ہولڈرز خصوصاً عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اس مسئلے کے بارے میں حساسیت بڑھانے اور صلاحیتو ں میں اضافہ کر نے کے حوالے سفارش کی گئی ہے۔
اپنے ابتدائی کلمات میں وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے کہا کہ تحقیق کے مطابق پاکستان میں 90 فیصد خواتین کو کسی نہ کسی طرح کے گھریلو تشدد کا سامنا ہے لیکن ان میں سے 50 فیصد اس کی اطلاع نہیں دیتیں۔ بدقسمتی سے یہ تمام اعداد و شمار بھی ہمارے سامنے بہت قلیل تعداد میں سامنے آئے ہیں معاملات کی نو عیت اس سے کہیں زیادہ سنجیدہ ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ گھریلو تشدد کیلئے قانون سازی اہم ہے لیکن اسکے سدباب کا زیادہ تر انحصار اس بات پر ہے کہ معاشرہ اپنے کمزوروں کو کس طرح دیکھتا ہے۔ انھو ں نے اس حوالے سے چلائی گئی مہم #GharKiBaatNahi کی تعریف کی اور کہا کہ یہ ایک مناسب ہیش ٹیگ ہے جو دنیا کے ہر سماجی طبقے اور ہر ملک پر لاگو ہوتا ہے اور تشدد کے حوالے سے ہمارے رویئے کو تبدیل کر نے کا سبب بھی ہے ۔
اپنے کلیدی خطاب میں وفاقی وزیر برائے تخفیف ِغر بت اور سماجی تحفظ شازیہ مری نے کہا کہ گھریلو تشدد کبھی بھی اُن کے لیے ایک غیر سنجیدہ مو ضو ع نہیں رہا بلکہ یہ پاکستان کی بہت سی خواتین کا ایک حقیقی مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ گھریلو تشدد سے بچ جانے والی خاتون کے درد کا تصور کر سکتی ہیں کیونکہ وہ خود بھی ان میں سے ایک ہیں اور گھریلو تشدد گھر یا خاندان کا مسئلہ نہیں ہے، یہ معاشرے اور قوم کا مسئلہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہر کسی کو شریعت کورٹ کا فیصلہ پڑھنا چاہیئے جس میں کہا گیا ہے کہ اسلام میں گھریلو تشدد کی اجازت نہیں ہے۔ ہمیں اس کو زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی ضرورت ہے۔ یہ غلط تاثر کہ اسلام خواتین کے خلاف تشدد کی اجازت دیتا ہے ۔ ہمیں لوگوں کو اسلام کے حقیقی پیغام سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔
یو این ویمن کی ڈپٹی کنٹری کی نمائندہ جیکی کیٹونتی نے این سی ایچ آر کی کوششوں کو سراہا اور گھریلو تشدد کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔
قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے گھریلو تشدد کے بل پر پالیسی بریف پیش کردی
گھر یلو تشدد کے خلاف قوانین پر عملدرآمد کروانا وقت کی اہم ضرورت ہے
اسلام آباد(پریس ریلیز) گھریلو تشدد کے خلاف وسیع مہم میں اپنا بھر پور کردار ادا کر نے کیلئے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) نے یواین ویمن کے ساتھ مل کر بروز منگل سے ”گھریلو تشدد پر پالیسی بریف“ لانچ کی ۔
پالیسی بریف اس بات کا تفصیلی احاطہ پیش کرتی ہے کہ گھریلو تشدد پاکستانی شہریوں بالخصوص خواتین کو کس طرح متاثر کرتا ہے۔ مزید برآں اس بریف میں گھریلو تشدد کے خلاف حکومت کی طرف سے عالمی سطح پر کی گئی یقین دہانیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے اس مسئلے کے فوری حل کے لیے متعلقہ قانون سازی کرنے کو ایک اہم قدم قرار دیا گیا ہے ۔
اس موقع پر این سی ایچ آر کی چیئرپرسن رابعہ جویری آغا نے کہا کہ ہم نے ملک گیر مشاورت ، سول سوسائٹی اور ریاستی اداروں کے مختلف اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد ملک میں گھریلو تشدد کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافے اور خواتین کو تحفظ نہ ملنے کا نوٹس لیا ہے ۔ پاکستان ایک غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے کورونا کے بعد تباہ کُن سیلاب اور بڑھتی ہوئی مہنگائی مردوں کے مقابلے میں خواتین کو کہیں زیادہ متاثر کر رہی ہے ۔
انھوں نے مزید کہا کہ پالیسی بریف پر کام کرنے کے علاوہ کمیشن نے پنجاب میں خواتین کی شادی کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہیلپ لائن (1413) کا آغاز کیا ہے جبکہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے پاس شکایت کے ازالے کا منظم نظام بھی موجود ہے جس کے تحت سندھ اور بلوچستان میں صوبائی گھریلو تشدد کے ایکٹ کے نفاذ پر مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں ۔
پالیسی بریف ریسرچ ٹیم کے ذریعے جمع کی گئی معلومات سے یہ حقائق سامنے آئے کہ 90 فیصد سے زیادہ پاکستانی خواتین کو اپنی زندگی میں گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے (COVID-19 لاک ڈاؤن کے دوران گھریلو تشدد پر HRCP فیکٹ شیٹ) اور لاک ڈاؤن کے دوران خواتین کے خلاف تشدد کے 10,000 سے 11,000 واقعات رپورٹ ہوئے (عورت فاؤنڈیشن، ایس ایس ڈی او اور نادرا)۔
قانونی فریم ورک کے حوالے سے بریف میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ اس وقت صو بوں میں پنجاب پروٹیکشن آف ویمن اگینسٹ وائلنس ایکٹ 2016، ڈومیسٹک وائلنس پریونشن اینڈ پروٹیکشن ایکٹ سندھ 2013 اور ڈومیسٹک وائلنس پریونشن اینڈ پروٹیکشن ایکٹ بلوچستان 2014 سمیت تین قوانین موجود ہیں جبکہ وفاقی سطح پر ایکٹ 2020 زیر التوا ہے۔
بریف میں وفاقی سطح پر گھریلو تشدد کے خلاف قانون سازی، گھریلو تشدد کے متاثرین کی مدد اور انھیں مختلف خدمات کی فراہمی، اس مسئلے کے بارے میں آگاہی و تعلیم دینے ، اسٹیک ہولڈرز خصوصاً عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اس مسئلے کے بارے میں حساسیت بڑھانے اور صلاحیتو ں میں اضافہ کر نے کے حوالے سفارش کی گئی ہے۔
اپنے ابتدائی کلمات میں وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے کہا کہ تحقیق کے مطابق پاکستان میں 90 فیصد خواتین کو کسی نہ کسی طرح کے گھریلو تشدد کا سامنا ہے لیکن ان میں سے 50 فیصد اس کی اطلاع نہیں دیتیں۔ بدقسمتی سے یہ تمام اعداد و شمار بھی ہمارے سامنے بہت قلیل تعداد میں سامنے آئے ہیں معاملات کی نو عیت اس سے کہیں زیادہ سنجیدہ ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ گھریلو تشدد کیلئے قانون سازی اہم ہے لیکن اسکے سدباب کا زیادہ تر انحصار اس بات پر ہے کہ معاشرہ اپنے کمزوروں کو کس طرح دیکھتا ہے۔ انھو ں نے اس حوالے سے چلائی گئی مہم #GharKiBaatNahi کی تعریف کی اور کہا کہ یہ ایک مناسب ہیش ٹیگ ہے جو دنیا کے ہر سماجی طبقے اور ہر ملک پر لاگو ہوتا ہے اور تشدد کے حوالے سے ہمارے رویئے کو تبدیل کر نے کا سبب بھی ہے ۔
اپنے کلیدی خطاب میں وفاقی وزیر برائے تخفیف ِغر بت اور سماجی تحفظ شازیہ مری نے کہا کہ گھریلو تشدد کبھی بھی اُن کے لیے ایک غیر سنجیدہ مو ضو ع نہیں رہا بلکہ یہ پاکستان کی بہت سی خواتین کا ایک حقیقی مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ گھریلو تشدد سے بچ جانے والی خاتون کے درد کا تصور کر سکتی ہیں کیونکہ وہ خود بھی ان میں سے ایک ہیں اور گھریلو تشدد گھر یا خاندان کا مسئلہ نہیں ہے، یہ معاشرے اور قوم کا مسئلہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہر کسی کو شریعت کورٹ کا فیصلہ پڑھنا چاہیئے جس میں کہا گیا ہے کہ اسلام میں گھریلو تشدد کی اجازت نہیں ہے۔ ہمیں اس کو زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی ضرورت ہے۔ یہ غلط تاثر کہ اسلام خواتین کے خلاف تشدد کی اجازت دیتا ہے ۔ ہمیں لوگوں کو اسلام کے حقیقی پیغام سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔
یو این ویمن کی ڈپٹی کنٹری کی نمائندہ جیکی کیٹونتی نے این سی ایچ آر کی کوششوں کو سراہا اور گھریلو تشدد کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔
قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے گھریلو تشدد کے بل پر پالیسی بریف پیش کردی
گھر یلو تشدد کے خلاف قوانین پر عملدرآمد کروانا وقت کی اہم ضرورت ہے
اسلام آباد(پریس ریلیز) گھریلو تشدد کے خلاف وسیع مہم میں اپنا بھر پور کردار ادا کر نے کیلئے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) نے یواین ویمن کے ساتھ مل کر بروز منگل سے ”گھریلو تشدد پر پالیسی بریف“ لانچ کی ۔
پالیسی بریف اس بات کا تفصیلی احاطہ پیش کرتی ہے کہ گھریلو تشدد پاکستانی شہریوں بالخصوص خواتین کو کس طرح متاثر کرتا ہے۔ مزید برآں اس بریف میں گھریلو تشدد کے خلاف حکومت کی طرف سے عالمی سطح پر کی گئی یقین دہانیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے اس مسئلے کے فوری حل کے لیے متعلقہ قانون سازی کرنے کو ایک اہم قدم قرار دیا گیا ہے ۔
اس موقع پر این سی ایچ آر کی چیئرپرسن رابعہ جویری آغا نے کہا کہ ہم نے ملک گیر مشاورت ، سول سوسائٹی اور ریاستی اداروں کے مختلف اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد ملک میں گھریلو تشدد کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافے اور خواتین کو تحفظ نہ ملنے کا نوٹس لیا ہے ۔ پاکستان ایک غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے کورونا کے بعد تباہ کُن سیلاب اور بڑھتی ہوئی مہنگائی مردوں کے مقابلے میں خواتین کو کہیں زیادہ متاثر کر رہی ہے ۔
انھوں نے مزید کہا کہ پالیسی بریف پر کام کرنے کے علاوہ کمیشن نے پنجاب میں خواتین کی شادی کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہیلپ لائن (1413) کا آغاز کیا ہے جبکہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے پاس شکایت کے ازالے کا منظم نظام بھی موجود ہے جس کے تحت سندھ اور بلوچستان میں صوبائی گھریلو تشدد کے ایکٹ کے نفاذ پر مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں ۔
پالیسی بریف ریسرچ ٹیم کے ذریعے جمع کی گئی معلومات سے یہ حقائق سامنے آئے کہ 90 فیصد سے زیادہ پاکستانی خواتین کو اپنی زندگی میں گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے (COVID-19 لاک ڈاؤن کے دوران گھریلو تشدد پر HRCP فیکٹ شیٹ) اور لاک ڈاؤن کے دوران خواتین کے خلاف تشدد کے 10,000 سے 11,000 واقعات رپورٹ ہوئے (عورت فاؤنڈیشن، ایس ایس ڈی او اور نادرا)۔
قانونی فریم ورک کے حوالے سے بریف میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ اس وقت صو بوں میں پنجاب پروٹیکشن آف ویمن اگینسٹ وائلنس ایکٹ 2016، ڈومیسٹک وائلنس پریونشن اینڈ پروٹیکشن ایکٹ سندھ 2013 اور ڈومیسٹک وائلنس پریونشن اینڈ پروٹیکشن ایکٹ بلوچستان 2014 سمیت تین قوانین موجود ہیں جبکہ وفاقی سطح پر ایکٹ 2020 زیر التوا ہے۔
بریف میں وفاقی سطح پر گھریلو تشدد کے خلاف قانون سازی، گھریلو تشدد کے متاثرین کی مدد اور انھیں مختلف خدمات کی فراہمی، اس مسئلے کے بارے میں آگاہی و تعلیم دینے ، اسٹیک ہولڈرز خصوصاً عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اس مسئلے کے بارے میں حساسیت بڑھانے اور صلاحیتو ں میں اضافہ کر نے کے حوالے سفارش کی گئی ہے۔
اپنے ابتدائی کلمات میں وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے کہا کہ تحقیق کے مطابق پاکستان میں 90 فیصد خواتین کو کسی نہ کسی طرح کے گھریلو تشدد کا سامنا ہے لیکن ان میں سے 50 فیصد اس کی اطلاع نہیں دیتیں۔ بدقسمتی سے یہ تمام اعداد و شمار بھی ہمارے سامنے بہت قلیل تعداد میں سامنے آئے ہیں معاملات کی نو عیت اس سے کہیں زیادہ سنجیدہ ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ گھریلو تشدد کیلئے قانون سازی اہم ہے لیکن اسکے سدباب کا زیادہ تر انحصار اس بات پر ہے کہ معاشرہ اپنے کمزوروں کو کس طرح دیکھتا ہے۔ انھو ں نے اس حوالے سے چلائی گئی مہم #GharKiBaatNahi کی تعریف کی اور کہا کہ یہ ایک مناسب ہیش ٹیگ ہے جو دنیا کے ہر سماجی طبقے اور ہر ملک پر لاگو ہوتا ہے اور تشدد کے حوالے سے ہمارے رویئے کو تبدیل کر نے کا سبب بھی ہے ۔
اپنے کلیدی خطاب میں وفاقی وزیر برائے تخفیف ِغر بت اور سماجی تحفظ شازیہ مری نے کہا کہ گھریلو تشدد کبھی بھی اُن کے لیے ایک غیر سنجیدہ مو ضو ع نہیں رہا بلکہ یہ پاکستان کی بہت سی خواتین کا ایک حقیقی مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ گھریلو تشدد سے بچ جانے والی خاتون کے درد کا تصور کر سکتی ہیں کیونکہ وہ خود بھی ان میں سے ایک ہیں اور گھریلو تشدد گھر یا خاندان کا مسئلہ نہیں ہے، یہ معاشرے اور قوم کا مسئلہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہر کسی کو شریعت کورٹ کا فیصلہ پڑھنا چاہیئے جس میں کہا گیا ہے کہ اسلام میں گھریلو تشدد کی اجازت نہیں ہے۔ ہمیں اس کو زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی ضرورت ہے۔ یہ غلط تاثر کہ اسلام خواتین کے خلاف تشدد کی اجازت دیتا ہے ۔ ہمیں لوگوں کو اسلام کے حقیقی پیغام سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔
یو این ویمن کی ڈپٹی کنٹری کی نمائندہ جیکی کیٹونتی نے این سی ایچ آر کی کوششوں کو سراہا اور گھریلو تشدد کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔
قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے گھریلو تشدد کے بل پر پالیسی بریف پیش کردی
گھر یلو تشدد کے خلاف قوانین پر عملدرآمد کروانا وقت کی اہم ضرورت ہے
اسلام آباد(پریس ریلیز) گھریلو تشدد کے خلاف وسیع مہم میں اپنا بھر پور کردار ادا کر نے کیلئے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) نے یواین ویمن کے ساتھ مل کر بروز منگل سے ”گھریلو تشدد پر پالیسی بریف“ لانچ کی ۔
پالیسی بریف اس بات کا تفصیلی احاطہ پیش کرتی ہے کہ گھریلو تشدد پاکستانی شہریوں بالخصوص خواتین کو کس طرح متاثر کرتا ہے۔ مزید برآں اس بریف میں گھریلو تشدد کے خلاف حکومت کی طرف سے عالمی سطح پر کی گئی یقین دہانیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے اس مسئلے کے فوری حل کے لیے متعلقہ قانون سازی کرنے کو ایک اہم قدم قرار دیا گیا ہے ۔
اس موقع پر این سی ایچ آر کی چیئرپرسن رابعہ جویری آغا نے کہا کہ ہم نے ملک گیر مشاورت ، سول سوسائٹی اور ریاستی اداروں کے مختلف اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد ملک میں گھریلو تشدد کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافے اور خواتین کو تحفظ نہ ملنے کا نوٹس لیا ہے ۔ پاکستان ایک غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے کورونا کے بعد تباہ کُن سیلاب اور بڑھتی ہوئی مہنگائی مردوں کے مقابلے میں خواتین کو کہیں زیادہ متاثر کر رہی ہے ۔
انھوں نے مزید کہا کہ پالیسی بریف پر کام کرنے کے علاوہ کمیشن نے پنجاب میں خواتین کی شادی کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہیلپ لائن (1413) کا آغاز کیا ہے جبکہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے پاس شکایت کے ازالے کا منظم نظام بھی موجود ہے جس کے تحت سندھ اور بلوچستان میں صوبائی گھریلو تشدد کے ایکٹ کے نفاذ پر مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں ۔
پالیسی بریف ریسرچ ٹیم کے ذریعے جمع کی گئی معلومات سے یہ حقائق سامنے آئے کہ 90 فیصد سے زیادہ پاکستانی خواتین کو اپنی زندگی میں گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے (COVID-19 لاک ڈاؤن کے دوران گھریلو تشدد پر HRCP فیکٹ شیٹ) اور لاک ڈاؤن کے دوران خواتین کے خلاف تشدد کے 10,000 سے 11,000 واقعات رپورٹ ہوئے (عورت فاؤنڈیشن، ایس ایس ڈی او اور نادرا)۔
قانونی فریم ورک کے حوالے سے بریف میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ اس وقت صو بوں میں پنجاب پروٹیکشن آف ویمن اگینسٹ وائلنس ایکٹ 2016، ڈومیسٹک وائلنس پریونشن اینڈ پروٹیکشن ایکٹ سندھ 2013 اور ڈومیسٹک وائلنس پریونشن اینڈ پروٹیکشن ایکٹ بلوچستان 2014 سمیت تین قوانین موجود ہیں جبکہ وفاقی سطح پر ایکٹ 2020 زیر التوا ہے۔
بریف میں وفاقی سطح پر گھریلو تشدد کے خلاف قانون سازی، گھریلو تشدد کے متاثرین کی مدد اور انھیں مختلف خدمات کی فراہمی، اس مسئلے کے بارے میں آگاہی و تعلیم دینے ، اسٹیک ہولڈرز خصوصاً عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اس مسئلے کے بارے میں حساسیت بڑھانے اور صلاحیتو ں میں اضافہ کر نے کے حوالے سفارش کی گئی ہے۔
اپنے ابتدائی کلمات میں وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے کہا کہ تحقیق کے مطابق پاکستان میں 90 فیصد خواتین کو کسی نہ کسی طرح کے گھریلو تشدد کا سامنا ہے لیکن ان میں سے 50 فیصد اس کی اطلاع نہیں دیتیں۔ بدقسمتی سے یہ تمام اعداد و شمار بھی ہمارے سامنے بہت قلیل تعداد میں سامنے آئے ہیں معاملات کی نو عیت اس سے کہیں زیادہ سنجیدہ ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ گھریلو تشدد کیلئے قانون سازی اہم ہے لیکن اسکے سدباب کا زیادہ تر انحصار اس بات پر ہے کہ معاشرہ اپنے کمزوروں کو کس طرح دیکھتا ہے۔ انھو ں نے اس حوالے سے چلائی گئی مہم #GharKiBaatNahi کی تعریف کی اور کہا کہ یہ ایک مناسب ہیش ٹیگ ہے جو دنیا کے ہر سماجی طبقے اور ہر ملک پر لاگو ہوتا ہے اور تشدد کے حوالے سے ہمارے رویئے کو تبدیل کر نے کا سبب بھی ہے ۔
اپنے کلیدی خطاب میں وفاقی وزیر برائے تخفیف ِغر بت اور سماجی تحفظ شازیہ مری نے کہا کہ گھریلو تشدد کبھی بھی اُن کے لیے ایک غیر سنجیدہ مو ضو ع نہیں رہا بلکہ یہ پاکستان کی بہت سی خواتین کا ایک حقیقی مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ گھریلو تشدد سے بچ جانے والی خاتون کے درد کا تصور کر سکتی ہیں کیونکہ وہ خود بھی ان میں سے ایک ہیں اور گھریلو تشدد گھر یا خاندان کا مسئلہ نہیں ہے، یہ معاشرے اور قوم کا مسئلہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہر کسی کو شریعت کورٹ کا فیصلہ پڑھنا چاہیئے جس میں کہا گیا ہے کہ اسلام میں گھریلو تشدد کی اجازت نہیں ہے۔ ہمیں اس کو زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی ضرورت ہے۔ یہ غلط تاثر کہ اسلام خواتین کے خلاف تشدد کی اجازت دیتا ہے ۔ ہمیں لوگوں کو اسلام کے حقیقی پیغام سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔
یو این ویمن کی ڈپٹی کنٹری کی نمائندہ جیکی کیٹونتی نے این سی ایچ آر کی کوششوں کو سراہا اور گھریلو تشدد کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔
قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے گھریلو تشدد کے بل پر پالیسی بریف پیش کردی
گھر یلو تشدد کے خلاف قوانین پر عملدرآمد کروانا وقت کی اہم ضرورت ہے
اسلام آباد(پریس ریلیز) گھریلو تشدد کے خلاف وسیع مہم میں اپنا بھر پور کردار ادا کر نے کیلئے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) نے یواین ویمن کے ساتھ مل کر بروز منگل سے ”گھریلو تشدد پر پالیسی بریف“ لانچ کی ۔
پالیسی بریف اس بات کا تفصیلی احاطہ پیش کرتی ہے کہ گھریلو تشدد پاکستانی شہریوں بالخصوص خواتین کو کس طرح متاثر کرتا ہے۔ مزید برآں اس بریف میں گھریلو تشدد کے خلاف حکومت کی طرف سے عالمی سطح پر کی گئی یقین دہانیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے اس مسئلے کے فوری حل کے لیے متعلقہ قانون سازی کرنے کو ایک اہم قدم قرار دیا گیا ہے ۔
اس موقع پر این سی ایچ آر کی چیئرپرسن رابعہ جویری آغا نے کہا کہ ہم نے ملک گیر مشاورت ، سول سوسائٹی اور ریاستی اداروں کے مختلف اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد ملک میں گھریلو تشدد کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافے اور خواتین کو تحفظ نہ ملنے کا نوٹس لیا ہے ۔ پاکستان ایک غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے کورونا کے بعد تباہ کُن سیلاب اور بڑھتی ہوئی مہنگائی مردوں کے مقابلے میں خواتین کو کہیں زیادہ متاثر کر رہی ہے ۔
انھوں نے مزید کہا کہ پالیسی بریف پر کام کرنے کے علاوہ کمیشن نے پنجاب میں خواتین کی شادی کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہیلپ لائن (1413) کا آغاز کیا ہے جبکہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے پاس شکایت کے ازالے کا منظم نظام بھی موجود ہے جس کے تحت سندھ اور بلوچستان میں صوبائی گھریلو تشدد کے ایکٹ کے نفاذ پر مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں ۔
پالیسی بریف ریسرچ ٹیم کے ذریعے جمع کی گئی معلومات سے یہ حقائق سامنے آئے کہ 90 فیصد سے زیادہ پاکستانی خواتین کو اپنی زندگی میں گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے (COVID-19 لاک ڈاؤن کے دوران گھریلو تشدد پر HRCP فیکٹ شیٹ) اور لاک ڈاؤن کے دوران خواتین کے خلاف تشدد کے 10,000 سے 11,000 واقعات رپورٹ ہوئے (عورت فاؤنڈیشن، ایس ایس ڈی او اور نادرا)۔
قانونی فریم ورک کے حوالے سے بریف میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ اس وقت صو بوں میں پنجاب پروٹیکشن آف ویمن اگینسٹ وائلنس ایکٹ 2016، ڈومیسٹک وائلنس پریونشن اینڈ پروٹیکشن ایکٹ سندھ 2013 اور ڈومیسٹک وائلنس پریونشن اینڈ پروٹیکشن ایکٹ بلوچستان 2014 سمیت تین قوانین موجود ہیں جبکہ وفاقی سطح پر ایکٹ 2020 زیر التوا ہے۔
بریف میں وفاقی سطح پر گھریلو تشدد کے خلاف قانون سازی، گھریلو تشدد کے متاثرین کی مدد اور انھیں مختلف خدمات کی فراہمی، اس مسئلے کے بارے میں آگاہی و تعلیم دینے ، اسٹیک ہولڈرز خصوصاً عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اس مسئلے کے بارے میں حساسیت بڑھانے اور صلاحیتو ں میں اضافہ کر نے کے حوالے سفارش کی گئی ہے۔
اپنے ابتدائی کلمات میں وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے کہا کہ تحقیق کے مطابق پاکستان میں 90 فیصد خواتین کو کسی نہ کسی طرح کے گھریلو تشدد کا سامنا ہے لیکن ان میں سے 50 فیصد اس کی اطلاع نہیں دیتیں۔ بدقسمتی سے یہ تمام اعداد و شمار بھی ہمارے سامنے بہت قلیل تعداد میں سامنے آئے ہیں معاملات کی نو عیت اس سے کہیں زیادہ سنجیدہ ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ گھریلو تشدد کیلئے قانون سازی اہم ہے لیکن اسکے سدباب کا زیادہ تر انحصار اس بات پر ہے کہ معاشرہ اپنے کمزوروں کو کس طرح دیکھتا ہے۔ انھو ں نے اس حوالے سے چلائی گئی مہم #GharKiBaatNahi کی تعریف کی اور کہا کہ یہ ایک مناسب ہیش ٹیگ ہے جو دنیا کے ہر سماجی طبقے اور ہر ملک پر لاگو ہوتا ہے اور تشدد کے حوالے سے ہمارے رویئے کو تبدیل کر نے کا سبب بھی ہے ۔
اپنے کلیدی خطاب میں وفاقی وزیر برائے تخفیف ِغر بت اور سماجی تحفظ شازیہ مری نے کہا کہ گھریلو تشدد کبھی بھی اُن کے لیے ایک غیر سنجیدہ مو ضو ع نہیں رہا بلکہ یہ پاکستان کی بہت سی خواتین کا ایک حقیقی مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ گھریلو تشدد سے بچ جانے والی خاتون کے درد کا تصور کر سکتی ہیں کیونکہ وہ خود بھی ان میں سے ایک ہیں اور گھریلو تشدد گھر یا خاندان کا مسئلہ نہیں ہے، یہ معاشرے اور قوم کا مسئلہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہر کسی کو شریعت کورٹ کا فیصلہ پڑھنا چاہیئے جس میں کہا گیا ہے کہ اسلام میں گھریلو تشدد کی اجازت نہیں ہے۔ ہمیں اس کو زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی ضرورت ہے۔ یہ غلط تاثر کہ اسلام خواتین کے خلاف تشدد کی اجازت دیتا ہے ۔ ہمیں لوگوں کو اسلام کے حقیقی پیغام سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔
یو این ویمن کی ڈپٹی کنٹری کی نمائندہ جیکی کیٹونتی نے این سی ایچ آر کی کوششوں کو سراہا اور گھریلو تشدد کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔
قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے گھریلو تشدد کے بل پر پالیسی بریف پیش کردی
گھر یلو تشدد کے خلاف قوانین پر عملدرآمد کروانا وقت کی اہم ضرورت ہے
اسلام آباد(پریس ریلیز) گھریلو تشدد کے خلاف وسیع مہم میں اپنا بھر پور کردار ادا کر نے کیلئے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) نے یواین ویمن کے ساتھ مل کر بروز منگل سے ”گھریلو تشدد پر پالیسی بریف“ لانچ کی ۔
پالیسی بریف اس بات کا تفصیلی احاطہ پیش کرتی ہے کہ گھریلو تشدد پاکستانی شہریوں بالخصوص خواتین کو کس طرح متاثر کرتا ہے۔ مزید برآں اس بریف میں گھریلو تشدد کے خلاف حکومت کی طرف سے عالمی سطح پر کی گئی یقین دہانیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے اس مسئلے کے فوری حل کے لیے متعلقہ قانون سازی کرنے کو ایک اہم قدم قرار دیا گیا ہے ۔
اس موقع پر این سی ایچ آر کی چیئرپرسن رابعہ جویری آغا نے کہا کہ ہم نے ملک گیر مشاورت ، سول سوسائٹی اور ریاستی اداروں کے مختلف اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد ملک میں گھریلو تشدد کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافے اور خواتین کو تحفظ نہ ملنے کا نوٹس لیا ہے ۔ پاکستان ایک غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے کورونا کے بعد تباہ کُن سیلاب اور بڑھتی ہوئی مہنگائی مردوں کے مقابلے میں خواتین کو کہیں زیادہ متاثر کر رہی ہے ۔
انھوں نے مزید کہا کہ پالیسی بریف پر کام کرنے کے علاوہ کمیشن نے پنجاب میں خواتین کی شادی کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہیلپ لائن (1413) کا آغاز کیا ہے جبکہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے پاس شکایت کے ازالے کا منظم نظام بھی موجود ہے جس کے تحت سندھ اور بلوچستان میں صوبائی گھریلو تشدد کے ایکٹ کے نفاذ پر مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں ۔
پالیسی بریف ریسرچ ٹیم کے ذریعے جمع کی گئی معلومات سے یہ حقائق سامنے آئے کہ 90 فیصد سے زیادہ پاکستانی خواتین کو اپنی زندگی میں گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے (COVID-19 لاک ڈاؤن کے دوران گھریلو تشدد پر HRCP فیکٹ شیٹ) اور لاک ڈاؤن کے دوران خواتین کے خلاف تشدد کے 10,000 سے 11,000 واقعات رپورٹ ہوئے (عورت فاؤنڈیشن، ایس ایس ڈی او اور نادرا)۔
قانونی فریم ورک کے حوالے سے بریف میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ اس وقت صو بوں میں پنجاب پروٹیکشن آف ویمن اگینسٹ وائلنس ایکٹ 2016، ڈومیسٹک وائلنس پریونشن اینڈ پروٹیکشن ایکٹ سندھ 2013 اور ڈومیسٹک وائلنس پریونشن اینڈ پروٹیکشن ایکٹ بلوچستان 2014 سمیت تین قوانین موجود ہیں جبکہ وفاقی سطح پر ایکٹ 2020 زیر التوا ہے۔
بریف میں وفاقی سطح پر گھریلو تشدد کے خلاف قانون سازی، گھریلو تشدد کے متاثرین کی مدد اور انھیں مختلف خدمات کی فراہمی، اس مسئلے کے بارے میں آگاہی و تعلیم دینے ، اسٹیک ہولڈرز خصوصاً عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اس مسئلے کے بارے میں حساسیت بڑھانے اور صلاحیتو ں میں اضافہ کر نے کے حوالے سفارش کی گئی ہے۔
اپنے ابتدائی کلمات میں وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے کہا کہ تحقیق کے مطابق پاکستان میں 90 فیصد خواتین کو کسی نہ کسی طرح کے گھریلو تشدد کا سامنا ہے لیکن ان میں سے 50 فیصد اس کی اطلاع نہیں دیتیں۔ بدقسمتی سے یہ تمام اعداد و شمار بھی ہمارے سامنے بہت قلیل تعداد میں سامنے آئے ہیں معاملات کی نو عیت اس سے کہیں زیادہ سنجیدہ ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ گھریلو تشدد کیلئے قانون سازی اہم ہے لیکن اسکے سدباب کا زیادہ تر انحصار اس بات پر ہے کہ معاشرہ اپنے کمزوروں کو کس طرح دیکھتا ہے۔ انھو ں نے اس حوالے سے چلائی گئی مہم #GharKiBaatNahi کی تعریف کی اور کہا کہ یہ ایک مناسب ہیش ٹیگ ہے جو دنیا کے ہر سماجی طبقے اور ہر ملک پر لاگو ہوتا ہے اور تشدد کے حوالے سے ہمارے رویئے کو تبدیل کر نے کا سبب بھی ہے ۔
اپنے کلیدی خطاب میں وفاقی وزیر برائے تخفیف ِغر بت اور سماجی تحفظ شازیہ مری نے کہا کہ گھریلو تشدد کبھی بھی اُن کے لیے ایک غیر سنجیدہ مو ضو ع نہیں رہا بلکہ یہ پاکستان کی بہت سی خواتین کا ایک حقیقی مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ گھریلو تشدد سے بچ جانے والی خاتون کے درد کا تصور کر سکتی ہیں کیونکہ وہ خود بھی ان میں سے ایک ہیں اور گھریلو تشدد گھر یا خاندان کا مسئلہ نہیں ہے، یہ معاشرے اور قوم کا مسئلہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہر کسی کو شریعت کورٹ کا فیصلہ پڑھنا چاہیئے جس میں کہا گیا ہے کہ اسلام میں گھریلو تشدد کی اجازت نہیں ہے۔ ہمیں اس کو زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی ضرورت ہے۔ یہ غلط تاثر کہ اسلام خواتین کے خلاف تشدد کی اجازت دیتا ہے ۔ ہمیں لوگوں کو اسلام کے حقیقی پیغام سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔
یو این ویمن کی ڈپٹی کنٹری کی نمائندہ جیکی کیٹونتی نے این سی ایچ آر کی کوششوں کو سراہا اور گھریلو تشدد کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔