پی۔سی۔ای کی تیرھویں سالانہ کنونشن میں سول سوسائٹی کی تنظیمیوں کا ہنگامی حالات کے دوران تعلیم کو ترجیح دینے کا مطالبہ
"قدرتی آفاتت کے بعد اور ہنگامی حالات کے دوران تعلیم، خصوصا لڑکیوں اور معذور بچوں کی تعلیم سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔" محترمہ زہرہ ارشد کا اسلام آباد میں پاکستان کولیشن فار ایجوکیشن کے زیر اہتمام تیرھویں سالانہ کنونشن سے خطاب
اسلام آباد(عمرانہ کومل)
“قدرتی آفاتت کے بعد اور ہنگامی حالات کے دوران تعلیم، خصوصا لڑکیوں اور معذور بچوں کی تعلیم سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔” ان خیالات کا اظہار محترمہ زہرہ ارشد نے اسلام آباد میں پاکستان کولیشن فار ایجوکیشن (PCE) کے زیر اہتمام تیرھویں سالانہ کنونشن میں کیا۔
اس سال کی کنونشن کا ٹاپک، Education Equity during Emergency and Beyond تھا۔ پاکستان بھر سے کولیشن کی پارٹنر تنظیموں نے اس 3 روزہ تقریب میں شرکت کی۔ کنونشن کے پہلے دو دنوں کے دوران، 15 اضلاع سے تعلق رکھنے والی سول سوسائٹی کی تنظیموں کے نمائندوں کو ہنگامی حالات کے دوران تعلیمی نظام کو مستحکم بنانے کے لیے اقدامات کے بارے میں آگاہی فراہم کی گئی جبکہ تقریب کا تیسرا دن پالیسی مباحثوں کے لیے وقف کیا گیا۔
پہلی پالیسی بحث کا عنوان “پاکستان میں ہنگامی حالات کے دوران تعلیم” تھا۔ ڈائریکٹوریٹ جنرل آف سپیشل ایجوکیشن کے ڈائریکٹر جنرل (ریٹائرڈ) جناب خالد نعیم، پاکستان یوتھ چینج ایڈوکیٹس (پی۔وائی۔سی۔اے) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اریبہ شاہد، ڈیپ۔ایڈ فلپائن کی ڈائریکٹر، محترمہ رونیلڈا کو اور چیف ایس۔ڈی۔جی یونٹ، محمد علی کمال نے بطور پینلسٹ حصہ لیا۔ پینل نے خاص طور پر ان مسائل کو اجاگر کیا جو لڑکیوں، خواتین اور معذور بچوں کو دربیش رہتے ہیں۔
” سیلاب کی وجہ سے 22,000 سے زائد اسکولوں کو یا تو نقصان پہنچا ہے یا وہ مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں۔ اس سے پسماندگی کا شکار طالب علموں کی پریشانیوں میں اضافہ ہوا ہے، جن میں لڑکیاں اور معذور طالب علم سرِ فہرست ہیں،” محترمہ زہرہ۔
“ہنگامی حالات کے بعد تعلیم کی بحالی کے لیے پہلا قدم ہمیشہ بچوں کو نفسیاتی مدد فراہم کرنے سے شروع ہوتا ہے تاکہ وہ محفوظ محسوس کریں اور زندگی کی جانب واپس آ سکیں” اریبہ شاہد۔
“پاکستان میں 20 لاکھ سے زیادہ معذور بچوں میں سے صرف 100,000 اسکولوں میں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے بچوں میں سے 96 فیصد سے زیادہ کو سیکھنے کے مواقعوں تک رسائی حاصل نہیں ہے،” جناب خالد نعیم نے معذوری کے شکار بچوں کی حالت زار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا۔ “اس صورتحال کو بہتر بنانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ صرف گہری معذوری والے بچوں کو خصوصی تعلیمی اداروں میں داخل کیا جائے جبکہ باقی ایسے بچوں کوعام تعلیمی نظام میں ضم کیا جائے۔”
جناب علی کمال نے آفات کے دوران تعلیم میں رکاوٹوں کو کم کرنے کے لیے لچکدار تعلیمی ڈھانچے کی تعمیر کی اہمیت کے بارے میں بات کی۔ “یہ سمجھنا اہم ہے کہ اگر مستحکم عمارتوں کے لیے ڈونر کی مدد نہ بھی ملے، تب بھی ہمیں انہیں بنانا ہوگا۔ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔”
محترمہ رونیلڈا نے اسٹیک ہولڈرز کے تمام متعلقہ گروپوں پر مشتمل کثیر الجہتی ردعمل کی ضرورت پر زور دیا جو ہنگامی صورتِ حال کے بعد فوری طور پر بچوں کی تعلیم تک رسائی ممکن بنا سکے۔
دوسرا پالیسی مکالمہ “تعلیم، ہنگامی حالات اور غیر یقینی صورتحال: فیصلہ سازی میں نوجوانوں کی شرکت ” پر مرکوز تھا۔ پینل میں پی۔سی۔ای کی پروگرام کوآرڈینیٹر محترمہ ایمن بابر، دی سٹیزنز فاؤنڈیشن کی سینئر ایسوسی ایٹ پروگرام عروج خالد، ایشیا ساؤتھ پیسفک ایسوسی ایشن فار بیسک اینڈ ایجوکیشن کی یوتھ کوآرڈینیٹر محترمہ پرینکا پال، محترمہ کنزا، وائے۔پی فاؤنڈیشن سے جمال اور حسن دجانہ شامل تھے۔
نوجوانوں کے نمائندوں نے جنس، نسل، نسل، مذہب اور رنگت سے قطع نظر فیصلہ سازی کے عمل میں نوجوان آوازوں کے باہمی تعاون اور ان کی شمولیت پر زور دیا۔
محترمہ ایمن بابر نے مشکل امور پر گفتگو شروع کرنے اور آگے بڑھانے پر زور دیا۔ “جب تک ہم مشکل موضوعات پر بات نہیں کریں گے، کوئی حقیقی تبدیلی ممکن نہیں ہو سکتی۔”
کنونشن کے اختتام پر، سول سوسائٹی کے شرکاء نے ایک سفارشاتی دستاویز پر دستخط کیے۔ انہوں نے سیاسی جماعتوں سے اپنے انتخابی منشور میں تعلیم کو ترجیح دینے کا مطالبہ کیا۔