تمباکو کے جدید آلات کی فروخت کی اجازت دینے سے صحت عامہ کے بنیادی ڈھانچے اور معیشت کو سنگین نقصان پہنچے گا – ملک عمران احمد
بچے اور کم آمدنی والے لوگ تمباکو کی صنعت کا بنیادی ہدف ہیں - خلیل احمد ڈوگر
اسلام آباد(عمرانہ کومل ) صحت کے کارکنوں نے تمباکو کے جدید آلات یعنی ایچ ٹی پی کو ریگولرائز کرنے کے لیے وفاقی کابینہ کے ایس آر او کی منظوری کے فیصلے پر دکھ اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے پاکستان کے صحت عامہ کے بنیادی ڈھانچے اور معیشت کو مزید نقصان دہ قرار دیا ہے۔سوسائٹی فار پروٹیکشن آف رائٹس آف دی چائلڈ (سپارک) کے منعقد کردہ میڈیا سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کمپین فار ٹوبیکو فری کڈز سی ٹی ایف کے کنٹری ہیڈ ملک عمران احمد نے کہا کہ پاکستان میں تمباکو کا استعمال ایک وبائی مرض بن چکا ہے اور 31 ملین سے زیادہ لوگ کسی نہ کسی شکل میں تمباکو کا استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہر سال تقریباً 170,000 لوگ مر جاتے ہیں۔ تمباکو کی صنعت نئی مصنوعات متعارف کروا کر ہماری صحت اور معیشت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ ملک عمران احمد نے مزید کہا کہ پاکستان میں تمباکو نوشی کی معاشی لاگت 615.07 بلین روپے ہے جو کہ پاکستان کے جی ڈی پی کے 1.6 فیصد کے برابر ہے لیکن تمباکو کی صنعت سے حاصل ہونے والی آمدنی کل لاگت کا صرف 20 فیصد ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مایوس کن حقیقت ہے کہ پالیسی سازی میں تمباکو کی صنعت کا گہرا اثر ہے۔ تمباکو کی جدید مصنوعات کو قانونی حیثیت دینے سے تمباکو کی صنعت کے لیے زیادہ آمدنی ہوگی لیکن ان مصنوعات سے ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے ہمارے قومی خزانے کو زیادہ نقصان پہنچے گا۔اس موقع پر سپارک کے پروگرام مینیجر خلیل احمد ڈوگر نے شرکاء کو بتایا کہ بچے اور کم آمدنی والے لوگ تمباکو کی صنعت کا بنیادی ہدف ہیں۔ پاکستان میں روزانہ 1200 سے زائد بچے سگریٹ نوشی کرتے ہیں اور تمباکو کی صنعت مزید کی تلاش میں ہے۔ یہ حکومت، سول سوسائٹی، تعلیمی اداروں اور میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ متحد ہو کر اس صنعت کے خلاف بندھ باندھیں جو ہمارے بچوں کو خطرے میں ڈال کر ہمارے مستقبل کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔