Uncategorized

پاکستانی خواتین کے ووٹر سے لیڈرشپ کا سفر تجربات تحقیقات مستقبل کی حکمت عملی اہداف کا حصول ممکن بنا سکتی ہے

خواتین کی جمہوری عمل میں شمولیت ۔۔ تحریر و تحقیق عمرانہ کومل

تازہ ترین خبر یہ ہے کہ نادرا کی جانب سے خواتین کے لئے جمعہ کا دن مختص کرتے ہوئے اس ایک روز صرف خواتین کے شناختی کارڈز کی فراہمی اور متعلقہ شکایات دور کرنے کا باقاعدہ آغاز کیاجارہاہے جو کہ ایک مستحسن اقدام ہے ۔

 

 

گو کہ ہماری پاکستانی عورت تاحال اپنی ذات کے گنے جانے کے لئے ابھی تک کوشاں ہے کھیت مزدور، فیکٹری ورکرز، بھٹہ مزدور یہاں تک کہ سینیٹری ورکرز ہر شعبہ ہائے زندگی میں جہاں جہاں بھی خواتین کام کرتی ہیں ان کے گوناں گوں مسائل میں ایک مسلہ یہ بھی ہے کہ انتظامی سطح پر فیصولں میں انہیں شریک نہیں کیاجاتایہی وجہ ہے کہ کھیتوں کھلیانوں میں کام کرتی عورتیں اپنے محنتانہ سے محروم ہوجاتی ہیں کیونکہ مارکیٹ تک اجناس لے جانے والے مرد حضرات ان کے معاشی حقوق سے محروم کردیتے ہیں جبکہ ایسے ہی تحفظات یونینز کی سطح پر بھی نظر آتے ہیں کہ جینڈر فرینڈلی ماحول نہ ہونے کی وجہ سے عورتیں پینے کے پانی سے لے کر واش روزمز کی سہولت کے مسائل کا شکار ہیں ۔۔ جبکہ پاکستانی عورت جو کہ آج ہر شعبہ ہائے زندگی سے منسلک ہے لیکن جب بھی آپ کسی خاتون سے سوال کریں کہ آپ کیا کرتی ہیں تو آپ کی سماعتوں کی نظر یہ جواب ضرور ہوگا کہ “میں ہاؤس وائف ہوں ” اکثر مرد اپنی بیویوں کا تعارف کرواتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ہمارے گھر کی وزیر اعظم ہیں ۔۔

لیکن سوال یہ پیداہوتاہے کہ اپنے گھر کی وزیر اعظم ہویاہاؤس وائف، کسان مزدور بھٹہ مزدور فیکٹری ورکر دیہی و شہری علاقہ سے تعلق رکھنے والی خواتین ہوں آئینِ پاکستان کے تحت وہ پاکستان کی مساوی حیثیت رکھنے والی شہری ہیں جن کی بالغ حق رائے دہی ملکی فیصلوں میں ازحد ضروری ہے۔ کیا ہماری عورت اپنے ووٹ کا حق استعمال کرتی ہے جو اسے آئین عطاکرتا ہے ۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا ہماری پاکستانی عورت اپنے ووٹ کا حق استعمال بھی کرتی ہے یا نہیں ایسے میں    قومی کمیشن برائے حیثیت نسواں نے الیکشن 2018 کی مشاہداتی رپورٹ بعنوان ( الیکشن 2018 میں خواتین)  ہمیں ان تمام سوالات کے جواب فراہم کرتی ہے جس کے مطابق الیکشن 23018 میں کل 10کروڑ 54 لاکھ 90 ہزار  ووٹرز میں 5کراڑ 52 لاکھ 20ہزار مرد ووٹرز جو کہ رجسٹر ووٹوں کا 55اعشاریہ 87 فی صد ہیں جبکہ خواتین ووٹرز 4 کروڑ 77لاکھ 30ہزار ہیں جو کہ کل ووٹرز کا 44 فی صد ہیں رپورٹ کے مطابق 2013 کو عام انتخابات میں مرد و خواتیں ووٹرز کی کل تعداد میں ایک کروڑ 2لاکھ 70ہزار کا واضح فرق تھا ۔ جبکہ الیکشن 2018 میں اس صنفی فرق میں مذید اضافہ ہوا اور ایک کروڑ 20لاکھ واضح فرق نظر آیا ، رپورٹ کے مطابق الیکشن 2018 میں ملک بھر میں 464خواتین امیدواروں نے مختلف حلقوں میں الیکشن لڑا جو مجموعی امیدواروں کا 5اعشاریہ 2فی صد ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق مذکورہ خواتین امیدواروں میں 289 خواتین کو پارٹی ٹکٹ ملا جبکہ 175 خواتیں آزاد امیدوار کی حیثیت میں سامنے آئیں ، رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں 5 خواجہ سرا نے بھی بطور امیدوار الیکشن میں حصہ لیا  جبکہ ملک بھر میں کل 157 غیر مسلم  امیدواروں میں صرف 7 اقلیتی خواتین نے الیکشن میں حصہ لیا ۔ اس طرح مرد خواتین اور خواجہ سرا کل 11ہزار 8سو 55 امیدواروں نے الیکشن  میں حصہ لیا ، چند مذہبی پارٹیوں نے خواتین امیدواروں کو ٹکٹ جاری نہیں کئے علاوہ ازیں الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت سیاسی پارٹیوں پر 5 فی صد خواتین کو بطور امیدوار نامذد کرنے کی شرط پر متعدد جماعتوں نے عمل نہین کیا جبکہ قانون کے مطابق الیکشن کمیشن نے بھی  ایسی باضابطگیاں کرنے والی سیاسی جماعتوں کے خلاف کاروائی نہیں کی ، رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کی جانب سے ووٹرز کو ان کے پولنگ اسٹیشن کی معلومات کی پیغام رسانی نامکمل تھی جس میں انہیں ان کے پولنگ اسٹیشن کے نمبر نہیں بتائے گئے تھے رپورٹ کے مطابق کل 94 سیاسی جماعتوں میں سے صرف 6 سیاسی جماعتوں نے خواتین امیدواروں کو ٹکٹ جاری کئے رپورٹ کے مطابق الیکشن کا عمل مجموعی طور پ پرامن رہا قانون نافذکرنے والے اداروں نے کی کارکردگی تسلی بخش رہی جبکہ چند  سماجی تنظیموں نے بھی الیشن کے عمل کا  بطور مشاہدہ کار جائزہ لیا ۔ مذکورہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن کے کنٹرول روم میں جینڈر ڈیسک وفاقی اور صوبائی سطح پر بنایا گیا تھا لیکن ٹول فری نمبر ہونے کے باوجود صوبائی ڈیسک پر آسانی سے رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا اسی طرح پولیگ اسٹیشنز کی تلاش میں بھی متعدد مقامی لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

رپورٹ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان ، نادرا اور متعلقہ حکومتی ادروں کو الیکشن ایکٹ اور عمل میں خواتین کی بطور ووٹر، سیاسی جماعتوں کی کارکن ، امیدوار اور تمام تر عمل میں سازگار ماحول کے لئے سفارشات بھی پیش کی گیئں ہیں  ۔ واضح رہے کہ  الیکشن کمیشن آف پاکستان ایسا ادارہ ہے جو الیکشن آبزرویشن کو فراخ دلی سے قبول کرتے ہوئے ان کے لئے ان کے مشاہدات کے کام کی راہ سازگار کرتاہےای سی پی میں 2اڑھائی ہزار لوگ کام کرتے ہیں جبکہ الیکشن کے باضابطہ عمل میں مقامی عدلیہ ، انتظامیہ سمیت دیگر اداروں کے 10لاکھ افراد نے مختلف ذمہ داریاں انجام دیں ۔ 

سال 2018 کے الیکشن کے حوالے سے یہ سنجدہ تحقیق پیش کرنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ایک جانب ضمنی الیکشنز کا دور دورہ ہے اور دوسری جانب سیاسی حلقے بلدیاتی الیکشنز سمیت عام انتخابات کی تیاریوں میں بھی مگن ہے ہر سیاسی جماعت اپنے حریف کو نیئے سے نیا سرپرائز دینا چاہتی ہے اگر پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کا بغور مشاہدہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ہر پارٹی میں خواتین ونگ خاص طور پر موجود ہین جہاں حلقہ کی سطح پر کواتین کو پارٹی میں شامل کرنے سے لے کر قومی سطح تک عہدے داران بھی ہیں اور الیکشنز کی سیٹوں پر بھی ارجسمنٹ کی جاتی ہے لیکن مزکورہ بالارپورٹ کو مدِنظر رکھاجائے تو معلوم ہوتاہے کہ تمام تر سیاسی جماعتوں کو اپنی تنظیموں میں خواتین کی زیادہ سے زیادہ شمولیت ممکن بنانے کے ساتھ ساتھ ہر سیاسی جماعد کا بنیادی مقصد ووٹر ایجوکیشن ہوتاہے اسے بھی کلیدی اہمیت دیناہوگی ۔ تاکہ خواتین پاکستان کی ہر سطح پر اپنے ووٹ کا حق بھی ادا کرے اور سیاسی عمل مین شمولیت ممکن ہو۔

پاکستان میں 1997 سے لے کر اب تک بطور صحافی الیکشن کا مشاہدہ ہویا الیکشن ابزرور یا خواتین کی سیاسی عمل میں شرکت کی اہمیت پر سہل کاری انجام دینے کے تجربات ایک بات ہمارے چاروں صوبوں کی خواتین میں مشترک ہی نظر آئی کہ ہر دور میں حالات حاضرہ پر تبصرہ سیاست کو اپنے باورچی خانہ سے جوڑنے کسی بھی سیاسی حالات کا میعشت پر اثر روزگار پر غیر معمولی اُتار چڑھاؤ گھریلوحالات میں ڈپریشن سے کس طرح منسلک کرتے ہوئے ان کے مطالبات سیاسی نظام میں بہتری لانے کے ہوتے ہیں جن کے لئے ان کے پاس مشورے بھی ہوتے ہیں انہین اپنے پینے کے پانی فراہمی و نکاسی آب کے مسائل اور ان کے حل کے بارے میں گرفت ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ سال 2001کے بلدیاتی نظام کی سب سے بڑی کامیابی خواتین کا بطور لیڈی کونسلر ، کسان مزدور کونسلر، اقلیتی کونسلر ، کہیں کہین ناظم اور نائب ناظم کے طور پر سامنے آنا ایک ایساانقلاب تھا کہ ملک بھر کی یہ خواتین لیڈرز جہاں ایک جانب اپنے اعزازیہ ومراعات واختیارات کی جدوجہد کرتی نظر آئین بلکہ دوسری جانب ان کے گلی محلوں کے مسائل انہی کے ہاتھوں حل ہوتے تھے ، یہی وجہ ہے کہ مقامی جمہوری نظام کے تسلسل کو خواتین کی سیاسی عمل میں شرکت کے لئے ایک اہم قدم گرداناجاتاہے ۔

سال 2018 الیکشن وہ پہلاموقع تھا کہ مجھے شہر اقتدار میں عام الیکشن کی ابزرویشن کرناتھی وہ بھی پاکستان کے اہم ترین حلقے این اے 53میں جہاں پاکستان کے مسقبل کے وزیراعظم کاچناؤ ہوناتھا ۔ اس حلقہ میں خواتین ووٹرز سے قبل از الیکشن ، حق رائے دہی کے روز اور بعد از الیکشن ملاقاتیں ہوئیں ۔ خواتین کی اکثریت سیاسی عمل میں دلچسپی بلکہ شوق و جنون رکھنے والی تھیں ۔ یہی تو وجہ تھی کہ پولنگ اسٹیشنوں پر اپنے ووٹ کی فہرست نہ ملنے پر انہوں نے دن بھی اپناپولیگ اسٹیشن تلاش کرنے پر لگایا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ متعدد خواتیبن ووٹرز کا کہناتھا کہ ووٹ اپنی مرضی سے نہیں بلکہ گھرلوں کی یابرادری کی مرضی سے کاسٹ کر رہے ہین جبکہ دوسری جانب یہ کہتے بھی عورتیں نظر آئیں کہ جس سے بھی وعدہ کیاہے اندر توہم اکیلے ہوں گے اور اپنے مرضی کا استعمال کریں گے۔۔ 

جی ہاں اپنی مرضی سے ووٹ کا استعمال ہی تو ووٹ کا صحیح استعمل ہے کیونکہ وہ ضمیر کی آواز ہوتاہے اوت پاکستان کا آئین یہ حق ہر عورت اور مرد کو تفویض کرتاہے لیکن اکثر خواتین ان کی مرضی کا حق استعمال کرناایک سوالیہ نشان ہے کیونکہ آج بھی پاکستان میں دیہی علاقوں میں کواتین کی خواندگی کی شرح انتہائی کم ہے جبکہ معاشی حالات مصائب سماجی رویوں نے انہیں دوسرے درجے کا شہری ہی نہیں بلکہ دوسرے ووٹ کے حق کی مرضی کی بھی درجہ بندی کر رکھی ہے کہ عورت مرد کی مرضی کا ٹھپہ لگائے گی جبکہ عورت ایک پڑھی لکھی ہویا کم پڑھی لکھی لیکن اس کے سیاسی سماجی مشاہدات کسی بھی تجزیہ نگار کی نظر سے اعلی نظر آتے ہین کیونکہ وہ اپنے مسائل کی منجھداڑ کو بہت شدت سے محسوس کرتے ہوئے اس سے نکلنے کے لئے سوال کرناجانتی ہے موقع ملے تو اور وہ موقع ملنا”ووٹ کا اختیار ” ہے بغیر کسی دباؤ کے۔ تاہم یہ حق ہماری تمام خواتین کو فراہم کرنے کے لئے سیاسی جماعتوں ہی کی  نہیں بلکہ حکومت کی بھی ذمہ داری ہے تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے الیکشنز کی ابزرویشنز ، خواتین ووٹرز کے حوالے سے تحفظات کی دوری سماجی اداروں کے ساتھ بہترین رابطہ کاری نادرہ کے ساتھ مشترکہ اقدامات خواتین کی سیاسی عمل میں مؤثر شمولیت کی جانب پیش رفت ہے جو قابل ستائش ہیں اس کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی جو کسی بھی معاشرے میں متحرک کردار ادا کرتی ہے اس حوالے سے عورت فاؤندیشن کے مختلف پروگرام سیاسی عمل میں خواتین کی شرکت یقینی بنانے کے لئے تاریخ رقم کرتے نظر آئے ہیں ۔ جبکہ  ادارہ استحکام شرکتی ترقی ، سیپ پاکستان۔ پتن ترقیاتی تنظیم انسانی حقوق کمیشن پاکستان ، سمیت سول سوسائٹی کے گروپس جن میں شہری تنظیمیں بھی شامل ہیں وکلا صحافی تاجر برادری خواتین کی سیاسی عمل میں شمولیت کی اہمیت کی فکری حمایت کرتے ہیں اور اپنی جانب سے خواتین کی سیاسی عمل میں  شرکت کے لئے راہ ہموار کرنے کی یقین دہانی بھی کرواتے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود ہم ابھی اپنے اہداف سے کوسوں دور ہیں ۔ جس کا ثبوت مزکورہ بالاتحقیق ہے ۔

 

 

 

آج اگر ہمیں اپنے ملک کا 49فیصد حصہ اپنی عورت جو معاشرے کی اکائی گھر سے لے کرہر شعبہ میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہے وہ بطور ووٹر کے اپنے حق کا استعمال کرنے میں اتناکم گراف کیوں رکھتی ہے ۔ جس کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں، سول سوسائٹی ۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان مل کر ایک نقطہ پر متفقہوکر مشترکہ حکمت عملی تیار کریں کہ عورت پاکستان کے ہر قریہ گاؤں شہر دیہات سے تعلق رکھنے والی بن جائے اپنے ووٹ کی رکھوالی اور اپنی تقدیر سنوارنے کے لئے رہے نہ کسی کی سوالی۔ کیونکہ پاکستانی خواتین کے ووٹر سے لیڈرشپ کا سفر

تجربات تحقیقات مستقبل کی حکمت عملی اہداف کا حصول ممکن بنا سکتی ہے

 

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button