موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے ماحولیاتی انصاف ناگزیر ہے: ڈاکٹر عادل نجم
وہ یہاں پالیسی ادارہ برائے پائدار ترقی میں”انڈس سے شرم الشیخ تک: موسمیاتی تبدیلی پر دیسی نقطہ نظر“کے عنوان سے لیکچر دے رہے تھے۔
اسلام آباد ( عمرانہ کومل):
بوسٹن یونیورسٹی، امریکہ کے ڈین ڈاکٹر عادل نجم نے کہا ہے کہ گلوبل نارتھ کے امیر ممالک کو کاربن میں کمی کے عزم کو پورا کرنا ہوگا ۔ پاکستان جیسے غریب ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہونے اور لچک پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ یہاں پالیسی ادارہ برائے پائدار ترقی میں”انڈس سے شرم الشیخ تک: موسمیاتی تبدیلی پر دیسی نقطہ نظر“کے عنوان سے لیکچر دے رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ آب و ہوا اب مستقبل کا مسئلہ نہیں ہے، اس لئے آب و ہوا کےلئے مستقبل کے لفظ کے استعمال سے لوگوں کو یہ گمان ہوتا ہے کہ ان کے پاس بہت زیادہ وقت ہے جبکہ حالیہ موسمیاتی واقعات مختلف صورتحال بیان کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کےلئے موسمیاتی تبدیلی دنیا کے دیگر ممالک سے مختلف ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب بھی وقت ہے ہم مل کر موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پا سکتے ہیں کیونکہ اس کے اثرات ہر ملک میں مختلف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لئے اصل بیرومیٹر انڈس ہے۔ موسمیاتی تبدیلی نے دنیا کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں ہمیںزیادہ متاثر کیا ہے، لہذا، ہمیں موسمیاتی تبدیلی کے مقابلے کیلئے دوسروں کے دیئے گئے ایجنڈے پر کام کرنے کے بجائے اپنا ایجنڈا دینا چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ یہ موافقت کے لیے جانے کا وقت ہے، کیونکہ موسمیاتی تبدیلی کے آغاز نے ماحولیاتی پالیسی اور موسمیاتی سیاست کی نوعیت کو بنیادی طور پر تبدیل کر دیا ہے۔ڈاکٹر نجم نے یاد دلایا کہ پیرس معاہدے میں بہت کم اخراج کا وعدہ کیاگیا تھا۔ 27 سال پہلے منعقد ہونے والی پہلی COP کے بعد ، فنانسنگ کے وعدے آج تک پورے نہیں کئے گئے۔ کسی بھی ملک نے 1.50C درجہ حرارت کے عزم کا مظاہرہ نہیں کیا اور اس کو حاصل کرنے کا کوئی سائنسی طریقہ نہیں ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان بنیادی طور پر سندھ طاس ہے جو اپنے منبع سے ڈیلٹا تک ترقی پذیر تہذیب کو برقرار رکھ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ”سندھ ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں تہذیبی چیلنج کا سامنا ہے،“ ملک کی 90 فیصد آبادی سندھ طاس پر رہتی ہے۔ 10 میں سے ہر 9 شہر انڈس کے 50 کلومیٹر کے دائرے میں ہیں، جس کی وجہ سے سندھ میں تبدیلیاں آ رہی ہیں اور یہ آبادی کے لحاظ سے بھی ایک چیلنج ہے۔ انہوں نے فصل کی افزائش کےلئے پانی کے استعمال کی کارکردگی کو بہتر بنانے کی تجویز دی۔انہوں نے کہا کہ COVID-19 سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ عالمی بحران کے دوران بھی ہمیں تعاون کی توقع نہیں رکھنی چاہئے بلکہ ریاستیں اپنے مفادات کو سب سے زیادہ ترجیح دیں گی۔ڈاکٹر عادل نے کہا کہ مالیات کی کمی کا تصور سراسر جھوٹ ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی ایک وجودی خطرہ ہونے میں یقین کی کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے افغان جنگ میں 2.6 ٹریلین ڈالرخرچ کئے، امریکی مالیاتی بحران کے بیل آو¿ٹ کی لاگت 4. ٹریلین تھی اور کوویڈ 19 کے خلاف امریکی جنگ کی لاگت 6.2 ٹریلین تھی۔انہوں نے زور دیا کہ دنیا کوموسمیاتی انصاف کی طرف بڑھنا چاہیے۔ کیونکہ موسمیاتی تباہی پھیل رہی ہے اور امداد کا مارجن سکڑ رہا ہے۔قبل ازیں، اپنے ابتدائی کلمات میں، SDPI کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ پاکستان COP 27 میں 136 ممالک کے گروپ کی سربراہی کر رہا ہے اور کیوٹو پروٹوکول بورڈ میں موجود پوری عالمی برادری کے اخراج میں کمی کے اہداف کا پابند تھا، لیکن اسے امریکہ سے الگ کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پیرس میں منعقدہ COP میں، امریکہ نے اخراج میں کمی اور موسمیاتی کارروائی سے متعلق وعدوں کی پابند نوعیت کو ہٹا دیا ، جس سے جوابدہی کا پہلو ختم ہو گیا۔انہوں نے کہا کہ گلوبل ساو¿تھ فنانسنگ پر اپنی وابستگی کو پورا کرنے کےلئے عالمی شمال کی طرف دیکھ رہا ہے، جو کہ ماحولیاتی انصاف کو پورا کرنا ہے۔