انسانیات

سماجیات

لسنر کلب کی خواتین بات کرتے کرتے خاموش ہوگئیں ۔۔ تولیدی صحت کی بات کرنا معیوب کیوں ۔۔ تریمتیں اپنے مسائل جانتی ہیں۔۔ لیکن بولے گی کوئی نہیں۔۔ اگر بات کر بھی لیں تو سنے گا کون۔۔ شعوری بیداری کے بغیر بنیادی مراکز صحت بھی کیاکرے۔۔ تولیدی صحت کے مسائل کا شکار خواتین کے مسائل حل کرنے کے لئے اقوام متحدہ و سیڈا معاہدات کے مطابق حقوق فراہم کئے جائیں۔۔ تحریر ۔ عمرانہ کومل۔۔

چند سال قبل جنوبی پنجاب کے ایک گاؤں میں بنائے گئے ایسے لسنر کلب کی روداد آپ کی نذر ہے جہاں ایک سماجی ادارہ نے خواتین کے حقوق کی تعلیم عام کرنے کے لئے ریڈیو پروگراموں کا سلسلہ شروع کیا۔۔ پروگراموں کو دیہی خواتین کو سنوانے کے لئے باقاعدہ دیہاتوں کی سطح پر خواتین کے لسنر کلب بنائے گئے۔۔ چند ماہ کے بعد ان پروگراموں کی افادیت کے حوالے سے جانچ کاری کے دوران جب لسنر کلب کی خواتین سے مشترکہ بات چیت کی گئی تو۔۔ خواتین نے تعلیم صحت شادی بیاہ کے معامللات وتہ سٹہ وغیرہ پر کھل کر بات کی ۔۔ اسی دورون ایک خاتون نے جب یہ کہا کہ کم عمری کی شادی کی وجہ سے ان کے گاؤن کی ایک لڑکی کے پیت مین بچہ مر گیا ۔۔ اب نہ وہ زندوں میں ہے نہ مردوں مین ۔۔ ساتھ ہی دوسری خواتین نے ایک دو قصے اور سنائے ڈالے ۔۔ ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ ۔۔ ایک بزرگ خاتون آئیں ۔۔ اور سب خواتین خاموش ہوگئیں ۔۔ جتنی دیر خاتون بیتھیں رہیں ۔۔ یہ موضومذید نہ چل سکا یہاں تک کہ ریڈیو کے پروگروموں پر بات چیت ہلکے پھلکے انداز سے ہوتی رہی ۔۔ جبکہ بزرگ خاتون بھی مختلف مسائل پر بات کرہی تھیں ۔۔ جن کے تاثرات تعلیم صحت بنیادی حقوق کے حوالے سے خاصے تسلی بخش تھے۔۔ وہ بھی اپنی بیٹیون کے حقوق دلانے میں دلچسپی رکھتی تھیں۔۔

اپنی باتیں قلمبند کروا کر بزرگ خاتون نے سب خواتین سے اجازت لی اور چلی گئین جس کے بعد ایک بار پھر خواتین نے اپنے ادھورے موضوع پر بات شروع کی۔۔ سہل کار خاتون نے سوال کیا کہ ابھی خالہ کے آنے پر سب خاموش کیوں ہوگئے تھے۔۔ جس پر سب خواتین کا کہنا تھا کہ ہمارے یہاں ایسی باتیں معیوب ہیں ۔۔ اگر حاملہ بہو کو معائینے کے لئے لے جانا ہوتا ساس کی اجازت ضروری ہے ۔۔ ساس کو ہر وقت شک رہتا ہے کہ ڈلیوری کے وقت کہیں بچے بند نہ کروا لئے جائیں۔۔ ساس اور بذرگ خواتین اس حوالے سے بہت حساس ہوتی ہین ۔۔ اس لئے تولیدی صحت کے مسائل کا شکار خواتین کے مسائل بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔۔خیر بات چیت چلتی رہی جومیرے لئے حیران کن بھی تھی اور یہ سمجھ بھی نہیں آریہاتھا کہ یہ مسائل کیسے حل ہوسکتے ہین ۔۔ کیونکہ وجہ خاندان کی بزدرگ خواتین بتائی جارہی تھی۔۔ جبکہ علاقہ میں صحت مرکز وغیرہ بھی تھے۔۔ اور ان کے زیادہ فعال نہ ہونے کی کئی وجوہات تھیں ۔۔
اتنے سال کے بعد یہ واقعہ یونیہ یاد نہیں آیا۔۔ یہاں وفاقی دارلحکومت کے ایک مضافاتی علاقہ کی ایک لڑکی نے بھی جب ایسا مسلہ بتایا تو مجھے میرا وسیب یاد آیا۔۔ یہاں کی لڑکی کا دکھ پہلے اس کی والدہ کی جانب اس اس کی چشم پوشی کے رویئے بعد ازاں شادی کے بعد اس کے ساتھ پیش آنے والے صحت کے مسائل کے ساتھ ساتھ ذہنی دباؤ کی کیفیات اور گھر ٹوٹ جانا شامل تھا۔۔ لیکن ابھی بھی اس لڑکی کے لئے اپنی زندگی کے مسائل کسی اپنے کو بتانا بھی معیوب سمجھا جاتاہے۔۔
آخر یہ تولیدی صحت کے مسائل کیا ہیں اور کیا ان پر بات کرنا معیوب ہے ۔۔ یاد رہے کہ پاکستان دنیا کے اُن 179ممالک میں شامل ہے جنہوں نے ’’انٹرنیشنل کانفرنس آن پاپولیشن اینڈ ڈیولپمنٹ‘‘ کے پروگرام آف ایکشن (1994) پر دستخط کیے تھے اور ’’ ملینئیم ڈیولپمنٹ گولز‘‘ کا بھی دستخطی ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان ’’ عورتوں کے خلاف ہر قسم کے امتیازات کے خاتمے کا معاہدہ‘‘ (CEDAW)کا بھی دستخطی فریق ہے۔ لیکن اس کے باوجود ملک میں جنسی و تولیدی صحت اور حقوق کی مجموعی صورتحال زیادہ تسلی بخش نہیں ہے۔
جنسی و تولیدی صحت کے حقوق انسانی حقوق کی عمارت کا ایک اہم ستون ہیں۔کیونکہ یہ حقوق لوگوں کے اقتصادی حالات، تعلیم، روزگار، معیارزندگی، خاندان کے ماحول، سماجی و صنفی تعلقات اور جس روایتی اور قانونی ڈھانچے کے اندر وہ رہتے ہیں ان کو متاثر تو کرتے ہی ہیں لیکن ان تمام عوامل سے خود بھی متاثر ہوتے ہیں۔ لہذا ان حقوق کی تکمیل ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہونی چاہئے لیکن افسوس پالیسی کی سطح پر اور سہولیات کی فراہمی کی طرف مطلوبہ توجہ نہیں دی جا رہی۔جبکہ روایتی اور ثقافتی رسوم جنسی و تولیدی صحت اور حقوق پر بات کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے ۔ جس کی وجہ آخر کیا ہے ۔۔ آخر کیوں خواتین کو تولیدی سہولیات کی ضرورت اگرچہ عمر بھر یعنی پیدائش سے موت تک رہتی ہے لیکن تولیدی عمر کے دورانیہ میں یہ دوچند ہو جاتی ہے اور خصوصاً کم عمر ی میں شادی کے بندھن میں بندھ جانے والی لڑکیوں کو تو اس کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ کیونکہ ملک میں 20 سے24 سال کی خواتین کے 21 فیصد کی شادی 18 سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے کر دی جاتی ہے۔ اور اس حوالے سے پاکستان دنیا میں 69 ویں نمبر پر ہے۔ جبکہ اسی ایج گروپ کی 8 فیصد خواتین کے ہاں پہلے بچے کی ولادت 18 سال کی عمر سے پہلے ہو چکی ہوتی ہے۔ گو کہ ہمارے یہاں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ خواتین کے حوالے سے تولیدی صحت کے مسائل الگ الاگ ہین لیکن دونوں میں مسائل پائے جاتے ہیں جن کے حل کے لئے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اقوام متحدہ سمیت سیدا معاہدات کے مطابق اس جانب توجہ دئئ ۔۔ محکمہ صحت میں انقلابی اقدامات اُٹھائے جائیں ۔ خاص طور پر بنیادی سطح پر والدین کو باشعور کیا جائے کہ ان کے بچوں کے تولیدی مسائل پر نظر رکھنی کیوں ضروری ہے ۔ جس کے لئے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی بنیاد پر نہ صرف ریسرچ سٹڈی کی ضرورت ہے بلکہ ایسے مراکز قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں ڈاکترز بھی حساس ہوں ۔۔ والدین کو باشعور کیاجائے ۔ تاکہ بچپن ہی سے شروع ہونے والے کسی بھی صحت کا مسلہ زندگی میں کبھی کوئی پیچیدہ مسلہ بن کر ذہنی نفسیاتی دباؤ اور زندگی کا روگ ہی نہ بن جائے۔۔ اور کوئی لڑکی اپنے خندان کی بزرگ عورت کے سامنے اپنے تولیدی صحت کے مسائل بتانے میں نہ ہچکچائے

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button